مجلس احرار اسلام۔۔۔عزم و ہمت کے 88 سال


برصغیرکے سیاسی افق پر 29 دسمبر 1929 کو مجلس احراراسلام ایک نئی سیاسی جماعت کے طورپر اُبھری۔ جس کے بانیوں میں وہ شخصیات نمایاں تھیں، جن کا شمارتحریک خلافت کی صفِ اوّل کی قیادت میں ہوتا تھا۔ ان میں سیدعطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مولانا سید محمد داؤد غزنوی، چودھری افضل حق، مظہرعلی اظہر اور شیخ حسام الدین شامل ہیں۔ سیاسی سطح پر کانگریس اور مسلم لیگ اور جمعیت علماء ہند کی موجودگی میں مجلس احراراسلام کا قیام انفرادیت کی انوکھی مثال تھی۔

مجلس احراراِسلام دیگر جماعتوں کے برعکس متوسط طبقہ کے رہنماؤں اورکارکنوں کی ترجمان تھی، جو پہلے دن ہی سے کسی مخصوص طبقے، گروہ یا فرقے کی بجائے ایک ایسا متحدہ پلیٹ فارم بن گئی۔ جس میں بلا تفریق مسلک ہرطبقہ کا نمائندہ رہنما موجود تھا، چونکہ مجلس احراراسلام کے بنیادی مقاصد میں آزادی وطن اورتحفظ ختم نبوت ایسے عظیم اہداف شامل تھے۔ اس لیے کسی بھی مکتبہ فکر کے لیے احرار میں شمولیت کے لیے بے پناہ کشش پائی جاتی تھی۔ احرار میں نہ صرف علماء کرام اور سیاست دان، بلکہ شاعروں، ادیبوں اوردانشوروں کی بھی ایک معقول تعداد موجود تھی۔ جس سے احرارکی عوامیت اور مقبولیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

احرارنے 1931 میں پہلی ملک گیر تحریک کشمیری مسلمانوں کے حق میں چلائی۔ جو تحریک خلافت کے بعد سب سے بڑی تحریک ثابت ہوئی۔ جس میں پچاس ہزار اَحرار کارکن گرفتارہوئے۔ اِس تحریک نے ہرطبقے کو متاثر کیا۔ علامہ اقبال نے تحریک کشمیر میں احرارکی تائید میں بیان جاری کیا۔ ممتاز شاعر اَخترشیرانی اور ڈاکٹر دین محمد تاثیر جیسے مشاہیر نے منظومات اور نامور اِشتراکی دانشور باری علیگ وغیرہ نے نثر کے ذریعے احرارمیں شمولیت کی دعوت عام کی۔

جمعیت علماء ہندکے رہنماؤں میں سے مفتی کفایت اللہ دہلوی اورمولانا احمد سعید نے تحریک کشمیر میں احرار کا بھرپور ساتھ دیا۔ تحریک کشمیر کے بعد احرار کی مقبولیت آسمانوں کو چھونے لگی۔ ہندوستان کے ہرعلاقے میں احرارکا طوطی بولنے لگا۔ احرار پِسے ہوئے طبقات اور غریبوں کی حالت بدلنے کا عزم لے کر اُٹھے تھے۔ جب مشرقی پنجاب کے علاقہ کپورتھلہ میں حکمرانو ں نے غریب عوام کا معاشی استحصال کیا تو سُرخ پوشانِ احراراُن کی مدد کو آئے اور گرفتاریوں اور صعوبتوں کے سہنے کے بعد وہ بالآخر کامیاب ہوئے اورمقامی حکام کو غریب عوام کے مطالبات کے آگے جھکنا پڑا۔

مستقبل میں بھی معاشی ناہمواریوں کے خلاف احرارکی آواز ہمیشہ بلند ہوتی رہی۔ سامراج دشمنی اورغریب دوستی احرار کا نشانِ امتیاز رہا۔ یہی وجہ تھی کہ ترقی پسند حلقوں کے ساتھ احرار کے تعلقات ہمیشہ دوستانہ رہے۔ رد قادیانیت کے لئے احرار جو تحریک چلائی اس کے اثرات کے نتیجہ میں علامہ محمداقبال نے بھی حکومت سے قادیانیوں کو غیرمسلم قراردینے کا مطالبہ کیا اورا ُن کے قلم سے مسلسل قادیانیوں کے خلاف نظم ونثر میں اظہارخیال ہوتا رہا۔

مجلس احراراسلام کے قائدین بے غرضی اور بے لوثی میں اپنے مثال آپ تھے۔ جرأت وبے باکی اورحق گوئی میں وہ ضرب المثل تھے۔ اس پرمستزاد یہ کہ اللہ نے انہیں خطابت کا بے نظیر ملکہ عطا کیا تھا۔ جس کی بدولت انہوں نے کروڑوں ہندوستانیوں کے دلوں سے انگریزی جبروت اور دہشت کا خوف دُورکیا۔ اُن کی زندگی ریل وجیل سے عبارت رہی، مگر وہ کلمۂ حق کہنے سے کبھی بازنہ آئے۔ جس پر اُنہیں شہرت کی بلندیاں ملیں۔ 1937 ء کے آمدہ انتخابات میں احرارکو شکست دینے کی خاطر اگر 1935ء میں پنجاب کے انگریز گورنر اَیمرسن کے ذریعے مسجد شہید گنج کا ملبہ مجلس احرار پر نہ گرایا جاتا تو پنجاب میں پہلی مرتبہ جاگیرداروں کی بجائے ایک متوسط طبقے کی نمائندہ حکومت کے قیام کی توقع کی جاسکتی تھی، مگر اَنگریز، قادیانی اور وَڈیروں کے گٹھ جوڑ نے احرار کی متوقع کامیابی کے راستے مسدود کر کے یونینسٹ حکومت کی راہ ہموار کر دی۔ اُس کے باوجود مجلس احرار کے سخت جانوں نے اپنے وجود اَور اِستقامت کا لوہا منوایا اور وہ وقتی ناکامی کے باوجود آنے والے وقت میں پوری قوت کے ساتھ اپنے مقاصد میں کامیاب رہے۔ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو مجلس احرار اسلام نے اپنے قیام کے جو مقاصد متعین کیے تھے، وہ اُن میں کامیاب رہی۔

پاکستان بنا تو مجلس احراراسلام نے 1949 میں سیاست سے دستبرداری کا اعلان کیا اور سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہوتے ہوئے بھی اپنی سیاسی حیثیت کو ختم کرکے مسلم لیگ کے لیے میدان خالی کردیا۔ بعداَزاں مجلس احرار نے دینی معاملات پر یکسوئی کے ساتھ توجہ مرکوز رَکھی، لیکن سیاسی میدان میں نہ ہونے کے باوجود قومی اموراورعوامی مسائل پر اُس کی توانا آواز سنائی دیتی رہی۔ اگست 1961 ء میں جماعت کے قائد امیر شریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کی رحلت کے بعد اُن کے جانشین و فرزند حضرت مولانا سید ابوذر بخاری ؒ  نے احرار کا شیرازہ جمع کیا اورحکومت الہٰیہ کے نفاذ، تحفظ ختم نبوت اورتحفظ ناموس صحابہؓ کے لیے احرار کو منظم اور متحرک کیا۔

 بعداَزاں فرزندانِ امیرشریعت مولانا سیدعطاء المحسن بخاریؒ، مولانا سیدعطاء المومن بخاری اورمولانا سیدعطاء المہیمن بخاری کی قیادت میں عہد بہ عہد مجلس احراراسلام کا قافلہ رواں رہا ہے۔ اب ابن امیرشریعت مولانا سیدعطاء المہیمن بخاری مدظلہ ’کی امارت میں مجلس احراراسلام، پاکستان کو اِسلام کا قلعہ بنانے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ مجلس احراراسلام عزم وہمت کا 88 برس کا طویل عرصہ طے کرکے اب بھی دین کی حاکمیت کے لیے سرگرم عمل ہے اوراَب 29 دسمبر کو اَپنا 89 واں یومِ تاسیس منا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).