ہمیں بیٹے کیوں چاہیے؟



اولاد بے شک بہت بڑی نعمت ہے لیکن جہاں یہ نعمت ہے وہی ساتھ میں یہ فتنہ بھی ہے۔ قرآن پاک میں مال کے ساتھ اولاد کو فتنہ قرار دیا گیا ہے۔ مال کا فتنہ ہونا سمجھ میں جلدی آ جاتا ہے لیکن یہ اولاد کیسے فتنہ ہوتی ہے؟ اسے سمجھنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے۔
اولاد کی بات کریں تو ہمارے معاشرے کو صرف بیٹے ہی چاہیے ہوتے ہیں زیادہ اہمیت بیٹوں کو ہی دی جاتی ہے، جائیداد پہ حق صرف بیٹوں کا ہی ہوتا ہے بیٹیاں جو باعث رحمت ہوتی ہیں ہمارے معاشرے میں باعث زحمت سمجھی جاتی ہیں۔ تعلیم پہ حق صرف بیٹوں کا ہوتا ہے اگر خدانخواستہ بیٹیاں کہیں زیادہ پڑھ لکھ گئیں تو جائیداد میں اپنا حق مانگ لیں گی یا پھر اپنی مرضی سے شادی کرنے کا کہیں گی لہذا تعلیم سے ان کو دور ہی رکھا جاتا ہے۔
گاؤں میں تو بہت ہی دلچسپ صورت حال ہوتی ہے محکمہ بہبود آبادی کا دفتر یا کلینک چونکہ یہودی و نصرانی سازش ہوتی ہے لہذا اس دفتر میں چوہدری صاحب کے مال ڈنگر (مویشی) باندھ کر اس ناپاک سازش کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کر دیا جاتا ہے۔ اور بدلے میں ہر گھر میں اوسطاً سات بچے پیدا کیے جاتے ہیں۔ اگر ابتدا میں بیٹا نہیں ہوتا تو یہ جدوجہد 10 بچوں تک بھی جاری رہتی ہے اور اگر مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوں تو دوسری، تیسری یا پھر چوتھی شادی کر کے نتائج اپنی مرضی کے حاصل کر کے ہی دم لیا جاتا ہے۔ اوسطاً سات بچوں کے ہوتے ہوئے ہر اچھی اور اہم چیز پہ حق صرف اور صرف لڑکے کا ہوتا ہے حتی کہ اچھی خوراک اور لباس کا حق دار بھی صرف لڑکا ہی ہوتا ہے۔
آپ آس پاس نظر دوڑا کے دیکھ لیں آپ کو کئی گھر ایسے ملیں گے جہاں 4 بہنوں کا ایک بھائی ہو گا یہ مت سمجھنا کہ وہ چار بیٹیاں خوشی سے برداشت کی جاتی ہیں وہ دراصل بیٹے کے حصول کا نتیجہ ہوتی ہیں لہذا ان کی انٹری ایک کڑوا گھونٹ ہی ہوتا ہے۔
اب آپ خدا کا انصاف ملاحظہ فرمائیں انسان جس بیٹی سے دور بھاگتا ہے، جس کی پیدائش پہ شرمندہ ہوتا پھرتا ہے اپنے مٙنتوں مرادودں سے حاصل کیے گئے بیٹے کے لیے پھر کسی نہ کسی کی بیٹی کے لیے سوال کرتا ہے اور اس کا ہاتھ اپنے بیٹے کے لیے مانگ کر لاتا ہے۔ اپنی وہی بیٹی جسے پیدا ہونے پے اپنی نسل آگے نہ بڑھنے سے ڈرتا ہے پھر کسی کی بیٹی اس لیے بیاہ کے لاتا ہے تا کہ اس کی نسل آگے بڑھے۔
اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے انسان تنگ و دو شروع کردیتا ہے اس کے لیے اپنا گھر بار سب کچھ قربان کر دیتا ہے پھر وہ وقت بھی آتا ہے اولاد کا مستقبل اچھا بن جاتا ہے لیکن اس اچھے مستقبل کے بنانے میں اپنا حال چونکہ سخت محنت میں گزارا ہوتا ہے لہذا انسان بستر مرگ ہو جاتا ہے۔
قدرت اپنا کھیل اب کھیلنا شروع کرتی ہے، بیٹیوں کو تو جیسے کیسے شادی بیاہ کے بعد ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے، بیٹے جن پہ بڑا مان ہوتا ہے جن کے مستقبل کو بنانے میں اپنا ماضی اور حال برباد کیا ہوتا ہے ان کی شادی بڑی دھوم دھڑام سے کی جاتی ہے پورے خاندان اور عزیز و اقارب کو مدعو کیا جاتا ہے تاکہ آس پاس صحیح دھاک بیٹھے اور اس کے لیے اپنی جمح پونجی اڑانے کے ساتھ ساتھ اچھی خاصی رقم کا مقروض ہوا جاتا ہے۔
اب جو بہو گھر لائی جاتی ہے اس کے لاکھوں ارمان ہوتے ہیں اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کا حق حاصل ہوتا ہے وہ بھلا اب بڈھے ماں باپ کو کہاں برداشت کرتی ہے لہذا پہلے ہی سال میں مطالبہ آجاتا ہے کہ یا اماں ابا کو کھڈے لائن لگاو یا پھر اپنا گھر الگ سے لو۔ بھائی پرائویسی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
جس بیٹے کے لیے ساری زندگی اتنی محنت کی ہوتی ہے وہ اب اپنے بیوی بچوں کی خاطر آپ سے الگ ہو جاتا ہے۔ ساری امیدیں سارے سپنے اور سارے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں، وہ بیٹا جس کا بستر بچپن میں جب گیلا ہوتا تھا تو اسے سوکھے پہ سلا کے خود گیلے پہ سو کے دسمبر کا جاڑا برداشت کیا ہوتا تھا وہ اب پلٹ کے بھی نہیں دیکھتا ہے۔ جس بیٹے پہ اپنی ساری پنشن کا پیسہ لگایا تھا وہ بیٹا اب کپڑے جوتے تک نہیں خرید کے دےسکتا ارے بھائی اس کا بجٹ خراب ہوتا ہے وہ کراے کے مکان میں رہ رہا ہوتا ہے اسے اپنا گھر بھی تو بنانا ہے اب وہ بچت کرے اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرے یا آپ کو روز سگریٹ کی ڈبی، چائے کے لیے دودھ، ہر دوسرے ماہ جوتا، ہر گرمیوں کا سوٹ یا پھرہر دسمبر میں نئی سویٹر لے کے دے؟
ایک تو ابا کی عینک نے ہر مہینے ضرور ٹوٹنا ہوتا ہے ارے میاں اب بیگم کا مہینے بھر کا میک اپ کا سامان اتنا ضروری اور اتنا مہنگا ہوتا ہے کہ عینک کے پیسے ہی نہیں بچتے، اور ویسے بھی پچھلے مہینے تو ٹھیک کرا کے دی ہوتی ہے۔
لو جی اب ابا حضور مہینے کے آخری دنوں میں سیڑھیوں سے گر جاتے ہیں اور ٹانگ فریکچر کروا بیٹھتے ہیں اب بھلا بندہ دیکھ کے ہی سڑھیاں اتر لیتا ہے کیا ہوا جو عینک کا ایک شیشہ ٹوٹا ہوا تھا، دوسرا تو ٹھیک تھا ناں؟ اب پچھلے ہفتے ہی تو بیگم کو ریشمی سوٹ لے کے دیا ایک تو مہنگائی اتنی ہے دس ہزار کا تو سوٹ آیا۔ اب اگر ابا کی ٹانگ کا ایکسرے کروایا جائے یا کسی اچھے ڈاکٹر کو دیکھایا جائے تو پانچ ہزار تو پکا لگ جانا اس پے۔
یہ ہفتہ ابا ایسے گزار لے پہلی پہ سرکاری ہسپتال لے کے جایا جائے گا۔ اب یہ خبر جب بیٹی کو ملتی ہے تو وہ اپنے زیور بیچ کے اور اپنے بیٹے کی فیس کے پیسے اٹھا کے ابا کا علاج فی الفور کروا دیتی ہے۔ ایک تو یہ بیٹی بڑی ہی بے وقوف ہوتی ہےارے بھائی زیور بیچ ڈالے؟ اور تو اور بیٹے کی فیس کے پیسوں سے ڈاکٹر کی فیس دے دی؟ اصل میں اس کا قصور نہیں ہوتا عورت ذات جو ٹھہری عقل نام کی تو چیز کوئی نہیں ہوتی اس میں۔
اب انسان کا اگلا وقت یہی سوچ کے گزرتا ہے کہ یہ زندگی اتنی مختصر سی کیوں تھی اور یہ وقت اتنا تیزی سے کیوں بھاگا ؟ اب جب تنہا ہو گیا ہوں کوئی حال پوچھنے والا نہیں، کیا عجیب شئے ہے یہ انسان ساری زندگی جن کی خاطر بھاگ دوڑ کی اب وہ پرسان حال ہی نہیں۔ اور تو اور یہ کم بخت وقت ہے کہ اب گزرتا ہی نہیں رات کو تو جیسے گھڑیاں ہی رک جاتی ہیں پہاڑ جیسی رات اللہ اکبر کی صدا سے ختم ہوتی ہے تو حی الصلوة اور حی الفلاح کے طرف جانے کا اب دل تو بہت کرتا ہے لیکن کم بخت یہ ٹانگیں اب جواب دے چکی ہوتی ہیں۔ وضو اب آنسو سے ہی ہوتا ہے اور نیند سے بہتر نماز اب بستر مرگ پے ہی ادا ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).