جب خادم رضوی، چے گویرا کا متبادل بنے


وہ آج جب دوبارہ کام کرنے کے لئے بیٹھا تو اس کے ڈیسک کے سامنے پھر وہی سبز رنگ کی دیوار تھی۔ گہرے سبز رنگ کی۔ دس سال سے وہ اسی فرم میں کام کر رہا تھا لیکن دو ماہ قبل اس کی ترقی ہوئی اور اسے مارکیٹنگ ٹیم کا سپروایزر بنا کر ہیڈ آفس بھیج دیا گیا۔ تنخواہ معقول ہو گئی اور وہ منزہ جو اسے پہنچ سے دور اک خواب لگتی تھی وہ اسے اب کچھ قریب قریب لگنے لگی۔ ویسے تو سب ٹھیک تھا لیکن ایک مسئلہ تھا جو اس کو چین نہیں لینے دیتا تھا۔ اس کے ڈیسک کے سامنے کی دیوار، جس کے ساتھ اس کا ڈیسک جڑا تھا، اس کا گہرا سبز رنگ اسے کسی جنگل کا احساس دلاتا تھا، ایسا جنگل جس کے سامنے وہ خود پنجرے میں بند ہو۔

اسے دیوار پر لال رنگ پسند تھا۔ گہرا انقلابی لال۔ پہلے تو تقریبا روزانہ وہ ایڈمن افسر اور اپنے دیگر رفقائے کار کو قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن آج اس نے دفتر کے انچارج سے بھی بات کی۔ وہ اپنے سابقہ دفتر کی طرح یہاں بھی اپنی جیب سے پیسے دے کر اس دیوار کا رنگ لال کروانا چاہتا تھا۔ اور یہ بھی کہ وہ اس دیوار پر چے گویرا کی وہی پرانی کی تصویر لگائے جو اسے اس کی ایک کلاس فیلو نے دی تھی۔ یہ دفتر چونکہ زیادہ کارپوریٹ انداز کا تھا اس لئے اپنی مرضی سے رنگ تبدیل کرنا دفتری معیار کے خلاف تھا۔ ہاں البتہ وہ کوئی بھی تصویر لگا سکتا تھا بشرطیکہ وہ چے گویرا یا مارکس وغیرہ کی نہ ہو۔

گہرے سبز رنگ کے ساتھ کس کی تصویر لگائے اور کیوں لگائے؟ کھانے کے وقفہ کے دوران وہ اسقبالیہ ڈیسک کے قریب کھڑا آدھے گھنٹے تک اسی سوچ میں سر کھپاتا رہا۔ اسی اثنا میں اس نے اپنے ایک کولیگ کو دفتر داخل ہوتے دیکھا جو موبائل پرمختلف ویڈیوز دیکھتا ہوا آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ جب وہ اس کے قریب سے گزرا تو اچانک موبائل فون میں سے آواز آئی۔ ”اؤ دلیا، او سورا۔ ! “

اس نے شام کو اسی مقرر کی تصویر فریم کروائی اور اگلے دن اپنے سامنے کی دیوار پر موٹا سا کیل ٹھونک کر لگا دی۔
آج دفتر سے جاتے ہوئے دل میں زور سے ہنسا اور سبز دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ”چے گویرا یا مارکس وغیرہ“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).