نئے پاکستان میں مردہ زندہ ہو کر سرکاری افسر لگ گیا
بد قسمتی سے قیام پاکستان کا منظر تو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ مطالعہ پاکستان میں تحریک و قیام پاکستان کی نا قابل یقین ہوش ربا داستانیں اور تلخ تاریخ ضرور پڑھی ہیں۔ ہاں پاکستان کو دو ٹکڑے ہوتے ضرور دیکھا اور اِس حوالے سے نصابی کتب میں یہی پڑھا کہ بنگالیوں نے شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں وطن عزیز سے غداری کی۔ خوش قسمتی سے رواں سال نیا پاکستان بنتے دیکھا ہے۔ اور ہر روز ملکی معیشیت و ذاتی معاش کو حکومتی معاشی تجاویز کی روشنی میں بڑھاوا دینے کا منصوبہ بناتے ہیں لیکن وزیراعظم کے اس طرح کے اعلان کے بعد کہ اب کبھی مرغی اور انڈے کی بات نہیں کروں گا، سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
مثبت خبروں کی تلاش میں اخبارات کی ورق گردانی اور الیکٹرونک میڈیا کی خبروں کو سننا معمول میں شامل ہے۔ آج روزنامہ ’جسارت‘ کی ورق گردانی کرتے ہوئے، کچھ نیا اور مثبت پڑھنے کو نہ ملا۔ ایک خبر پڑھی کہ تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ اور خرم شیر زماں عوام سے تیاری کرنے کا کہ رہے ہیں، کیوں کہ ان کی جماعت سندھ میں حکومت بنانے والی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے یہ دعوی بھی کیا کہ سندھ میں پی ٹی آئی کو دیگر جماعتوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کے 22 ارکان اسمبلی کی مدد بھی حاصل ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ہم پانچ سال انتظار نہیں کر سکتے۔ اس لیے سندھ حکومت کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے اور وزیر اعلی مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل میں آنے کی وجہ سے پی ٹی آئی وزیر اعلی ہاوس کا گھیراؤ بھی کرے گی۔
صوبہ خیبر پختون خواہ کی اسمبلی کے حوالے سے خبر تھی کہ حکومتی ایماء پر احتساب کمیشن کے خاتمے بل کا گزشتہ روز منظور کر لیا گیا۔ بل میں سفارش کی گئی ہے کہ احتساب کمیشن کا ادارہ ختم کرکے تمام کیسز محکمہ انسداد بد عنوانی ( اینٹی کرپشن ) کے حوالے کر دیے جائیں۔ حزب اختلاف کے اراکین اسمبلی نے مذکورہ بل کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور تین ارکان تو واک آوٹ ہی کر گئے۔ اسی طرح وزیر ریلوے نے بھی وزیر اعلی سندھ سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے اور مارچ تک سارے گندے انڈے صاف ہو جانے کی حسب عادت پیش گوئی کی ہے۔ اسی طرح کی خبریں پڑھتے پڑھتے تلاش بسیار کے بعد ایک مثبت خبر پڑھنے کو مل ہی گئی کہ قائد حزب اختلاف اور چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ وہ مسلم لیگ ( ن ) کے دور کا آڈٹ نہیں دیکھیں گے۔
حکومت وقت اپنے تین چلے پوری کر چکی ہے اور تبلیغی حضرات فرماتے ہیں کہ تین چلے کے بعد بندہ راہ راست پر آ جاتا ہے لیکن تجربہ و مشاہدہ تو یہ ہے کہ بندہ تبلیغی جماعت کو مطلوب راہ راست پر تو کسی حد تک آ جاتا ہے، پر بندہ حقیقت میں بندہ تین چلے میں بھی نہیں بن پاتا کہ بندہ بننے کے لیے عمر بھر کی ریاضت درکار ہے۔ حکومت تین چلے کے بعد راہ راست پر آ گئی ہے یا اپنی سمت متعین کر پائی ہے کہ نہیں، اس سوال کا جواب عوام کو تو کیا حکومت وقت کو خود بھی معلوم نہیں۔
حکومتی تین چلے کیسے گزرے، خوب پتا چلے کہ ڈالر 140 کا ہوگیا، سی این جی 105 فی کلو ہو گئی، پٹرول کے نرخ کے ساتھ اکثر اشیائے ضرورت کی قیمتیں بھی تاریخ کی بلند سطح پر پہنچ گئیں۔ نہ صحت و تعلیم کے حوالے سے حکومتی دعووں کی مناسبت سے کوئی مثبت خبر ملی اور نہ ہی معذور افراد کی فلاح و بہبود، خواتین کے وراثتی حق، کرمنل جسٹس ریفارمز اور خواتین کو روزگار کی فراہمی کے حوالے سے حکومتی وعدوں کی طرف کوئی حکومتی پیش رفت نظر آئی۔
وزیر اعظم اور ان کے وزراء ہمہ وقت حکومتی کام کرنے کی بجائے، ان اداروں کی سرپرستی کرتے نظر آئے، جن کا کام احتساب کرنا اور انسداد بد عنوانی ہے۔ وفاقی اور صوبائی وزہر اطلاعات پنجاب سابق حکمرانوں کو بمع دعا جیل ہونے کی خبریں ہنوز دے رہے ہیں۔ اگر یہی مثبت خبریں اور حکومتی کارکردگی ہے تو ہر حکومت کو اس کارکردگی سے باز رہنا چاہیے۔
جہاں چند دن قبل جاری ہونے والی 172 افراد کی ای سی ایل لسٹ کے حوالے سے افسوس ناک انکشاف ہوا کہ لسٹ میں چوتھے نمبر پر شامل عبد المومن ڈاہری ہیں جن کے متعلق ان کے برادر حقیقی رئیس عبدالغفار ڈاہری نے بتایا کہ جگر کے عارضے میں مبتلا ہوکر وفات پا چکے ہیں۔ وہیں وطن عزیز کے سب سے بڑے نیوز چینل کے ایک پروگرام میں نئے پاکستان کی نئی حکومت کی کارکردگی اور فیصلوں کے حوالے سے ایک نہایت مثبت خبر سننے کو ملی کہ شیخ اختر حسین نامی سابق ڈریپ افسر، جن کے اوپر نیب نے 51 ملین روپے کی بد عنوانی اور رقم کے خر برد کا ریفرنس سنہ 2011 میں دائر کیا تھا اور شیخ اختر حسین نیب انکوائری میں خود کو مردہ قرار دے کر بچ نکلے تھے اور ان کے چار ساتھیوں کو سزا ہو گئی تھی، پھر سے زندہ ہو گئے ہیں اور مر کے زندہ ہو جانے کے بعد ان کے ہوش و حواس سنبھالنے کی خبر جیسے ہی حکومت وقت کے پاس پہنچی تو حکومت وقت نے فوراً سے پیش تر کہ کہیں ان کی دوبارہ موت نہ واقع ہوجائے، مر کر زندہ ہوجانے والی اس نایاب ہستی کو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا چیئرمین بنا دیا ہے کہ جہاں وہ دوبارہ زندہ ہو جانے کے بعد اپنی ڈرگز کا خیال رکھیں، وہیں قوم کے لیے بھی کوئی قابل عمل و مفید ڈرگ پالیسی بنائیں۔
- برازیل کے نو منتخب صدر لولا ڈا سلوا - 02/11/2022
- خالہ آمنہ عفت، حمرا اور صہبا خالہ - 04/07/2022
- جیت کس کی ہوئی؟ - 08/04/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).