پھر کیا حل ہے؟


توبہ توبہ خدا! آج نو سالہ بچی کے ساتھ۔۔۔

کیا پھر کوئی ریپ ہوا؟

صرف ریپ نہیں۔ بعد میں بچی کا سر پتھر سے کچل کر اس کی لاش کو کسی پیر کے مزار کے پاس پھینک دیا

کتنا ظلم ہے۔ پر کیوں اتنا ظلم ہے؟ ابھی کچھ دن ہی پہلے ایک تین سالہ بچی کے ساتھ بھی تو کچھ ایسا ہی ہوا۔ آج اخبار میں پڑھ رہا تھا کہ نو سالہ لڑکے کو بھی زیادتی کے بعد قتل کر کے نالے میں پھینک دیا۔

انسان درندے ہو چکے ہیں۔ زینب کی بھینٹ سے یہ سال شروع ہوا۔ اور جاتے جاتے بھی ہم سب کے منہ پر جوتے لگا کر جا رہا ہے۔ ہم کتنے بے بس ہیں کچھ بھی تو نہیں کرسکتے۔

میرے خیال میں آگے مزید بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ خطرناک واقعات ہوں۔

مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے بے حیائی بہت پھیل چکی ہے۔ یہ سب میڈیا ننگی فلموں اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ہورہا ہے۔

نہیں شاید ایسا نہیں۔ ایسے واقعات ٹی وی کمپیوٹر کی ایجاد سے پہلے بھی ہوا کرتے تھے۔ تب بس یہ اخبار کے دوسرے تیسرے صفحے کی معمولی خبر ہوتے تھے۔ اب سوشل میڈیا کی وجہ سے یوں گمان ہوتا ہے جیسے یہ واقعات اپنے گلی محلے میں پیش آرہے ہوں۔

شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ مگر لوگ ایسا کرتے ہی کیوں ہیں؟ زیادتی کے بعد کیا قتل کرنا ضروری ہوتا ہے؟

کون مجرم چاہے گا کہ اس گھناؤنے جرم میں پکڑا جائے؟ یہ ویسے اس سنگین جرم کے بعد قتل کرنا کوئی ایک آدھ صدی پہلے سے ہی شروع ہوا ہے۔ خاص طور پر جب سے ٹیکنالوجی جدید ہوئی ہے۔ تب سے ایسے تمام مجرموں کا ڈر اور بڑھ گیا ہے۔ شکار کو زندہ یا ادھ موا چھوڑنا انہیں بہت رسکی لگتا ہے۔ گو زیادہ تر مجرم پھر بھی پکڑے جاتے ہیں۔ مگر شاید جس سچوئشن میں وہ ایسے فیصلے کرتے ہیں اس وقت ان کا دماغ کسی اور طرح سے کام کر رہا ہوتا ہے۔

ایسے لوگوں کا کوئی دماغ ہوتا تو ایسے گندے گھٹیا کام کرتے۔ یہ جانور ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو الٹا لٹکانا چاہیے۔ سرِ عام پھانسی ملنی چاہیے پھر ہی زمانہ عبرت پکڑے گا۔

اگر انسانوں نے سخت سزاؤں سے کوئی عبرت پکڑنی ہوتی اب تک پکڑ چکے ہیں۔ اس طرح سے لوگ مزید نفسیاتی مریض بنیں گے۔ اور شاید الٹا ایسے مسائل اور بڑھ جائیں۔

پر ایسے مسائل کا پھر کیا حل ہے؟

ایسے مسائل مکمل تو شاید کبھی حل نہ ہو پائیں مگر ان میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ ہمارا معاشرہ بہت کمپلیکس ہے۔ اس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ نہ قدیم ہے نہ جدید۔ ایک بڑی سوشل چینج سے گزر رہا ہے۔ اس لیے اسے استحکام حاصل کرنے میں شاید بہت وقت لگے۔

کیسی سوشل چینج؟

وہ جو قدرتی طور پہ آتی ہے۔ ہمارے لوگ مشینوں اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے پہلے تو بالکل ناواقف تھے۔ اب کوشش میں ہیں کہ بنا کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے نئی دنیا سے بھی آگے نکل جائیں۔ جو کہ ظاہر ہے ناممکن ہے۔
اس ملک کا حال تم خود ہی دیکھ لو۔ بس سات آٹھ بڑے شہر ہیں اور وہ بھی آہستہ آہستہ انسانوں کے لئے جہنم بنتے جا رہے ہیں۔ نہ کوئی ٹھوس منصوبہ بندی ہے۔ نہ آبادی کو کنٹرول میں کیا جا رہا ہے۔ جس کا جہاں دل چاہتا ہے پلازہ دکانیں تعمیر کرنا شروع ہو جاتا ہے۔ کالونیوں پہ کالونیاں بن رہی ہیں۔ آس پاس کے دیہات شہر کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ غرض ہم اپنی اجتماعی خودکشی کا مکمل سامان تیار کر رہے ہیں۔

کیسی اجتماعی خودکشی؟

بھئی جب آبادی اندھا دھند بڑھے۔ درخت پارک جنگل نہ ہونے کے برابر رہ جائیں۔ شہر جہنم بن جائیں پھر زلزلے طوفان آتے ہیں وسائل کے لئے جنگیں ہوتی ہیں۔ بلوے ہوتے ہیں۔ بیماریوں کے حملے ہوتے ہیں۔ قدرت نے نظام کو بیلنس بھی تو کرنا ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے ہمارے اکثر لوگ ہر آفت کا ذمے دار خدا کے عذاب کو سمجھتے ہیں۔ مگر درحقیقت ان کی بے وقوفیوں اور ہٹ دھرمی سے بڑا خدائی عذاب کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ خود ذلیل ہو ہو کر جینا چاہتے ہیں ذلیل ہو ہو کر مرنا چاہتے ہیں۔

اچھا اب ڈراؤ تو ناں۔ کہا سے بات شروع ہوئی تم کہاں لے گئے۔ ان باتوں سے چھوٹے بچوں کے ریپ قتل کا کیا تعلق؟

نہ سمجھو تو کوئی تعلق نہیں۔ سمجھو تو بہت گہرا تعلق ہے۔

وہ کیسے؟

بھئی جہاں تنگ آبادی۔ تنگ گلی محلے ہوں۔ شدید غربت ہو۔ عورت مرد کے آزادانہ تعلق کے درمیان دیواریں ہی دیواریں ہوں۔ معیاری تعلیم نہ ہو۔ کو ایجوکیشن کو برا سمجھا جاتا ہو۔ سیوک ایجوکیشن کا سرے سے وجود ہی نہ ہو۔ وہاں ایسے واقعات نہ ہوں تو پھر کیا ہو؟

مگر ترقی یافتہ ممالک میں بھی تو ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ بلکہ ہمارے ملک سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔

زیادہ اس لئے ہوتے ہیں کہ وہاں ایسے تمام واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو جب تک کوئی شدید زخمی یا قتل نہ ہو تب تک کسی کو فکر ہی نہیں ہوتی۔ جانے کتنے واقعات ہیں جو بدنامی کے ڈر سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ یا ہوتے بھی ہیں تو کوئی خاص کارروائی نہیں ہوتی۔ یہ بھی یاد رکھو ترقی یافتہ ممالک میں مجرموں کی بھی کونسلنگ کی جاتی ہے۔ انہیں سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔ انہیں پھر سے ایک ذمہ دار شہری بننے کا موقع دیا جاتا ہے۔ ان کی آبادی کم ہے وسائل زیادہ ہیں۔ ایک پورا سسٹم ہے۔ ادھر ایسا کچھ تمہیں نظر آتا ہے؟

یہاں تو صرف بڑے بڑے بھاشن دیے جا رہے ہیں۔ پیروں کے عرس میلے چل رہے ہیں۔ اذان پہ اذان ہو رہی ہے۔ بچے پہ بچہ پیدا ہو رہا ہے۔ اور بچے پہ بچہ ریپ ہو رہا ہے۔

حسن کرتار
Latest posts by حسن کرتار (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).