زینب میری بیٹی ہے


میں جانتی ہوں آج جس موضوع کو شامل تحریر کر رہی ہوں اس پہ لکھنا آسان نہیں۔ جس معاشرے کامیں حصہ ہوں وہ اتنا جذباتی ہوچکاہے کہ شائد ہی کچھ لوگ اس تحریر کوسمجھ پائیں۔
کبھی آپ نے جنگل میں جانورں کا اپنے بچوں کی ایسے حفاظت کرتے دیکھا ہے کہ کہیں دوسرا جانور اس کے بچے کا ریپ نہ کر دے ،نہیں دیکھا ہو گا کیونکہ یہ کمال بھی ہم انسانوں کوحاصل ہے۔معصوم زینب اپنی موت سے پورا معاشرہ جھنجوڑ کےچلی گئی لیکن اس ناسور ہوس کا خاتمہ پھر بھی نہی ہوا۔

ایبٹ آباد کی تین سالہ معصوم بچی جسے ابھی صرف بھوک پیاس ہی کی سمجھ تھی اس کو ہوس کے خونی بھیڑئے نے اپنی خواہش پوری کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

ایک اور نو سالہ بچی نالے میں مردہ پائی گئی۔ کیا قصور تھا اس کا۔ اتنی سی عمر میں جسم عورت کا تھا لیکن دل ودماغ اس خواہش سے بہت دور۔

عمرکے ساتھ ساتھ حسیات اجاگر ہوتی ہے یہ قدرتی عمل ہے اس عمل کےدوران ماں باپ کا فرض ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور اپنے بچے بچیوں کو معاشرے کے ماحول کو سمجھتے ہوئے ان کی حفاظت کریں۔ بچوں سے صرف یہ کہ دینا کہ یہاں مت جاؤ وہاں مت جاؤ ، کوئی ہاتھ نہ لگائے کوئی چیز لےکر مت کھاؤ، یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے۔ مسئلہ صرف بچوں کوسمجھانے سےختم نہیں ہوگا۔
مسئلہ پورے معاشرے کے سمجھنے کا ہے۔ جس طرح ماں کا دن باپ کا دن بہن بھائی اور استاد کا دن منایاجاتا ہے بالکل اسی طرح سیکس یا جذبات سے آگہی کادن بھی منانا چاہیے۔ جس ملک میں اوسط طبقہ خط غربت سے نیچے ہو وہاں دلچسپی کا واحد سامان سیکس ہی ہے۔

چھوٹے اور تنگ گلیوں میں رہنے والے زندگی کی بہت سی سہولیات سے محروم ہوتے ہیں۔ ٹی وی سے لیکر اخبارات تک کی پہنچ ان گھروں میں نہیں ہے اس پر سونے پہ سہاگہ سستے انٹرنیٹ والے موبائل عام ہیں جس پہ جوان نسل جو چاہے جیسا چاہے دیکھ سکتی ہے۔

ان سب پہ پابندی لگا بھی دی جائے تو اندرونی تبدیلی آنے سے جو تغیر پیدا ہوتا ہے اس کا غبار کہیں نہ کہیں پھٹے گا اور وہ اس طرح پھٹتا ہے کہ معصوم بچے بچیاں اس کا شکار ہوتی ہیں۔ معاشرے میں رہنےوالے ہر ذی ہوش کو اس کا حل سوچنا چاہیے۔ جسمانی بےراہ روی ایک بیماری ہے اس کے مرکز قائم ہونے چاہیے جہاں آپ خود مریض ڈھونڈ کر لائیں ایسے لوگ اپنے آس پاس کہیں نا کہیں کسی بھی شکل میں ضرور نظر آتے ہیں۔

معاشرے میں آزادی کے نام پہ جو آزادی دی ہوئی ہے اس پہ توجہ دینے کی ضرورت ہے جیسے کہ سپرائٹ کےایک اشتہار میں خاتون فرمارہی ہیں کہ اتنی مرچیں کھائیں کہ میری پھٹ گئی۔ استغفراللہ

جب غریب آدمی کی واحد تفریح ٹی وی ہو اور ایسے اشتہار تو اس کا ذہن کیا اثر قبول کرے گا۔

ایسے بیمار لوگوں کو علاج کے ساتھ ساتھ آن کے رہن سہن کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ماحول صاف ستھرا ہوتا ہے تو روح بھی تروتازہ ہو جاتی ہے ،سوچ پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے۔

معاشرہ ہم آپ جیسے لوگوں سے ہے اپنا ماحول صاف ستھرا رکھنے کی ضرورت ہے۔

ایسے مریض معاشرے میں رہیں گے سب کا فرض ہے وہ ان پر نظر رکھیں کہیں بھی کچھ مشکوک ہوتو اس سے لاتعلق نہ ہوں۔ شائد اس طرح کچھ بہتری آسکے معصوم بچے اس درندگی سے بچ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).