بندے کا اللہ سے تعلق اور توکل


پچھلے دنوں صحیح بخاری کی ایک طویل حدیث نظر سے گزری جس میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ نے غزوہ تبوک میں اپنی عدم شرکت اور پھر اس غلطی پہ انھیں کیسے کیسے آزمایا گیا اور انھیں کیا سزا دی گئی، اس کی پوری تفصیل تھی۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بتایا کہ اپنی سستی کی وجہ سے میں غزوہ تبوک میں شامل نہ ہو سکا، جس پہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم ناراض ہو گئے۔ سب مومنین نے ان سے بول چال بند کر دی۔ بنو غسان سے خط ملا کہ تم ہمارے پاس آ جاؤ تمھارے صاحب یعنی رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم تم سے زیادتی کر رہے ہیں۔ کیا تم ذلیل پیدا ہوئے ہو۔ ہم تمھیں عزت دیں گے۔ حضرت کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خط جلا دیا۔ اس طرح اور کئی امتحان بھی آئے، لیکن آخر 50 دن کی مسلسل توبہ کے بعد، اللہ اور رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انھیں معاف کرتے ہوئے بشارتیں دیں۔

اس حدیث کو پڑھ کے میرے ذہن میں ایک بات آئی، کہ ہماری روز مرہ میں ہم سب کے ساتھ بھی تو ایسا کچھ ہی ہوتا ہے۔ ہم سے غلطیاں سر زد ہوتی رہتی ہیں، لیکن اللہ ہر غلطی یا گناہ کے بعد ہمارا رِسپانس دیکھتا ہے، کہ آیا ہم اکڑ گئے ہیں، کہ ہم نے تو کچھ غلط نہیں کیا، یا پھر عاجزی اختیار کرتے ہوئے، اللہ سے معافی مانگ کے آیندہ کے لیے توبہ کرتے ہیں۔ جو اکڑ گیا اس کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے، کہ ابلیس اسے اُچک لے اور جو جھک گیا، اس پہ رحمتیں اور نعمتیں نازل ہوتی ہیں۔

پھر مجھے خیال آیا کہ ہم انسان اللہ کے نزدیک مٹی کے برتنوں کی طرح ہیں، جن کو اللہ حالات کی بھٹی میں پکاتا ہے پھر جب وہ برتن پک جاتا ہے، تو وہ ٹھوکر مار کے چیک کرتا ہے کہ آیا کہ کچا ہے کہ پکا۔ اگر تو امتحان سے نکل گیا اور ٹن ٹن کی آواز سے بولا تو اس کی قیمت لگ جاتی ہے اور اگر کچا پکا رہ گیا تو پھینک دیا جاتا ہے؛ بالکل ضائع۔

علامہ ابن جوزی نے ثابت رحمت اللہ علیہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے کہ ’’ابن آدم اللہ عزوجل اور ابلیس کے درمیان پڑا ہے، اگر خدا چاہتا ہے کہ اس کو محفوظ رکھے، تو بچا لیتا ہے اور اگر چھوڑ دیتا ہے، تو شیطان اسے اٹھا کے لے جاتا ہے‘‘۔

ایسے میں اللہ اسی کو محفوظ رکھتا ہے، جو اس کا بندہ ہوتا ہے۔ جو ہر خوشی اور ہر غمی، خوش حالی اور غریبی میں اپنے رب کو نہیں بھولتا؛ جو اپنے تمام اختیارات اپنے رب کے آگے پھینک دیتا ہے۔ غرض واصف کے الفاظ میں جو یہ ایمان رکھتا ہے کہ ”جو کرتا ہے اللہ کرتا ہے اور اللہ جو کرتا ہے ٹھیک کرتا ہے“، اور جو اس ایمان کی دولت سے محروم و مشکوک ہوا اس کو آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔

میں نے کئی لوگوں کو دیکھا کہ جہاں ان کا اختیار ختم ہوا، جہاں حالات اور معاملات ان کے قابو سے باہر ہوئے فوراً جھولی اٹھا کے جب یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے مولا! حالات ہمارے اختیار سے باہر ہیں، لیکن سب کچھ آپ کے اختیار میں ہے۔ ہمارے معاملات میں بہتری فرما اور جو قابو سے باہر ہوا اس کو آپ قابو کریں۔ تو اللہ اپنی غیبی مدد کرتا ہے پھر یوں ہوتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس کی مدد آتی ہے لیکن کب اور کیسے آنی ہے یہ وہ خود فیصلہ کرتا ہے۔ اسی چیز کو دین میں توکل بھی کہا گیا ہے۔

انسان کا ازلی دشمن اللہ اور بندے کے اس تعلق کو کم زور کرنے کے لیے بہت ٹیکنیکل فارمولے استعمال کرتا ہے۔ اور آج اس کے یہ فارمولے بہت ہی کام یاب جا رہے ہیں اور لوگ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے آلہ کار بن رہے ہیں۔ ایسے حالات میں اللہ پہ پختہ ایمان اور توکل ہمیں ابلیس کے جدید تکنیکی حملوں سے بچا سکتا ہے۔ اللہ سب کو دین حق پہ قائم رکھے۔ آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).