تعلیمی ایمرجنسی کی ضرورت


ریاست کی شہریوں پر بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک تعلیم ہے۔ تاکہ معاشرے سے جہالت کا خاتمہ ہوسکے اور ہر فرد عزت مند، ذمہ دار شہری کے طور پر اپنے فرائض ادا کرسکے، اگر فرد بطور شہری اپنیذمہ داریوں سے آگاہ نہ ہوسکا تو اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں ’کیونکہ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر‘ ۔ معاشرے کے ترقی اور قوم کی تقدیر و تدبیر کو درست سمت میں ڈھالنا ذمہ دار شہریوں کا فرض ہوتا ہے۔ معاشرے میں تعلیم کا مقام دیگر ریاستیذمہ داریوں سے اس لئے بھی بلند ہے کہ تعلیم لوگوں کو جینے کا گر سکھاتی ہے اور اپنے حقوق و فرائض سے آشنا کراتی ہے، جو لوگ اپنیذمہ داریاں ادا کرنے سے نہیں کتراتے ہیں وہ لوگ اپنے حقوق کے حصول کے لئے بھی ہر حد تک جانے کو تیار ہوتے ہے ں، انہیں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ حقوق غصب کرنا ایک نشہ اور عادت ہے، اگر ایک صاحب فہم کے حقوق اتنی آسانی سے غضب کیے جاتے ہیں تو عام آدمی کے حقوق کا دفاع کون کرے گا؟

گلگت بلتستان گوکہ ملک بھر میں تعلیمی میدان میں اپنی ایک پہچان رکھتا ہے، دس اضلاع پر مشتمل گلگت بلتستان میں خواندگی کا سفر بہت تیز ہے۔ 1998 کے سروے کے مطابق جی بی کے مردوں میں خواندگی کی شرح 52 فیصد جبکہ خواتین میں خواندگی کی شرح 21 فیصد تھی۔ جبکہ 2013 میں شرح خواندگی کے حوالے سے کی گئی سروے کے مطابق مردوں میں خواندگی کی شرح میں اضافہ ہوتے ہوئے 70 فیصد اور خواتین میں خواندگی کی شرح 50 فیصد بتائی گئی ہے۔

لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ گلگت بلتستان میں تعلیم سب سے مہنگی ہوگئی ہے، باوجود اس کے کہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری تعلیم ہے لیکن گھروں میں سب سے زیادہ لوگوں کو جس بات کی فکر ہوتی ہے وہ تعلیمی اخراجات ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ابتدائی تعلیم تقریباً مفت جبکہ اعلیٰ تعلیم صرف قابل اور محنتی طلبہ تک محدود ہوتی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف شرح خواندگی بہتر نظر آتی ہے بلکہ معیار تعلیم بھی برقرار رہتا ہے۔

گلگت بلتستان کے لوگ اپنی توجہ تعلیم پر مرکوز کیے ہوئے ہیں، دیامر سے لے کر ہنزہ تک اب یہ فکر عام ہوگئی ہے کہ بچوں کو تعلیم کے بغیر معاشرے کا ذمہ دار فرد نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دور دراز اور سخت علاقوں میں رہنے والے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لئے گلگت اور ملک کے دیگر شہروں کا رخ کررہے ہیں۔ تعلیم کے لئے ہجرت کرنا صرف صاحب استطاعت لوگوں کا فعل ہوسکتا ہے غریب لوگ کبھی ایسا قدم نہیں اٹھاسکتے ہیں۔

غربت اور تعلیم کا تعلق بہت گہرا ہے غریب کے لئے تعلیم مشکل ہوتی ہے لیکن تعلیم یافتہ غریب نہیں ہوسکتا ہے۔ گلگت بلتستان کے غریب سے مراد وہ لوگ نہیں ہیں جنہیں کسی شماریاتی ادارے کی جانب سے غریب قرار دیا گیا ہو بلکہ یہاں کی غربت سے مراد بہت بھیانک غربت ہے، بیروزگاری کے اس دور میں دوردراز کے لوگوں کے پاس سوائے کاشتکاری کے کوئی اور ذریعہ آمدن نہیں ہے اور گلگت شہرمیں کا غریب وہ ہے جس کے روزمرہ کے اخراجات اس کی آمدن سے زیادہ ہوتے ہیں۔

ایسی غربت کی زندگی لوگوں کو تعلیم سے دور کرتی ہے جو نہ صرف ’چائلڈ لیبر یعنی بچوں کی بامشقت مزدوری‘ جیسے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ مشکل وقت میں اگر کسی فرد کو اپنا سہارا نظر نہ آئے تو وہ اپنا وقت پلٹنے کے لئے ہر جائز ناجائز قدم اٹھانے کے لئے تیار ہوتا ہے پھر وقت پلٹنے کے بعد اسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرایا جا سکتا ہے۔

گلگت بلتستان میں سرکاری نظام تعلیم پر لوگوں کا اعتماد بحال کرانا ناگزیر ہوچکا ہے، اگرچہ صوبائی حکومت گلگت بلتستان نے تعلیم کے میدان میں اچھے اقدامات بھی اٹھائے ہیں جن میں طلبہ کو مفت کتابیں، وردی بستہ و دیگر اشیاءکی فراہمی، سرکاری سکولوں میں باضابطہ ٹیسٹنگ سروس کے تحت اساتذہ کی میرٹ پر تعیناتی اور دیگر اقدامات شامل ہیں لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں۔ وقت کی رفتار کے مطابق سرکاری سکولوں کو اس وقت حقیقی معنوں میں تعلیم کا مرکز ہونے کی ضرورت ہے۔

سرکاری سکولوں میں باوجود بہترین اساتذہ ہونے کے تعلیمی معیار اور امتحانی نتائج بہت کم ہوتے ہیں، اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے صوبائی حکومت نے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے امتحانی بورڈ کے ساتھ اپنا الحاق کو ختم کرکے وفاقی انٹربورڈ سے الحاق کرنے کا اعلان کردیا ہے اور ساتھ میں جی بی کے نئے تعلیمی بورڈ کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ ان اقدامات کے منفی اثرات بھی موجود ہیں جو ابھی سے پڑ رہے ہیں تاہم مثبت نتائج کے لئے انتظار کرنا پڑے گا۔

سردست صوبائی حکومت کو تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے جو ضلعی انتظامیہ کی مدد، محکمہ تعلیم اور غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون سے ممکن ہوسکتا ہے جن کے ذریعے یہ بات معلوم کی جاسکتی ہے کہ لوگ آخر اپنے اولاد کو باوجود غربت کے سرکاری سکولوں میں کیوں نہیں بھیجتے ہیں، حتیٰ کہ گلی محلے کے سکولوں میں بھجوانے کو ترجیح دیتے ہیں جن کے تعلیمی معیار کا انہیں علم بھی ہوتا ہے۔

تعلیم کا یہ موضوع اس لئے آج وقت کی ضرورت بن گیا ہے کہ گزشتہ دنوں پبلک سکول اینڈ کالجز گلگت کے ایک طالبعلم ابرار نے سالانہ نتائج سامنے آنے پر خودکشی کرلی ہے۔ خاندانی ذرائع کے مطابق آٹھویں کلاس کا طالبعلم ابرار امتحان میں کم نمبر آنے پر دلبرداشتہ تھا جس کی وجہ سے اپنی زندگی کا چراغ گل کردیا ہے۔ پھول جیسا چہرہ، چہرے سے معصومیت ٹپک رہی ہے لیکن چہرہ میں حرکت نہیں ہے۔ خود کشی وہ قتل ہے جس کے پیچھے ایک نہیں سینکڑوں قاتل موجود ہوتے ہیں، وجوہات اور مسائل کی شکل میں یہ قاتل معاشرے کے چہرے پر ایک داغ ہوتے ہیں۔

نونہال ابرار اگر پبلک سکول کی نسبت دیگر مشکل تعلیم حاصل کرنے سے قاصر تھا تو اس کو کسی دوسرے سکول میں داخل کروایا جاسکتا تھا اور اس بات کا اظہار یقینا اس کے لئے بہت مشکل ہوگیا ہوگا کہ انہوں نے زندگی کا چراغ ہی گل کردیا ہے۔ تعلیم صرف ایک معلم کی ذمہ داری نہیں ہوتی ہے، تعلیم تربیت کے بغیر تکمیل تک نہیں پہنچ سکتی ہے یہ کیسی تعلیم ہوگی جو ایک طالبعلم کو اپنی جائز بات کا اظہار کرنے کی ہمت نہیں دیتی ہے۔

پبلک سکول اینڈ کالجز گلگت بلتستان بالعموم اور گلگت شہر میں بالخصوص تعلیمی ’برانڈ‘ کی حیثیت حاصل کرچکا ہے۔ اس برانڈڈ تعلیم کے لئے غریب لوگ بڑی بڑی قربانیاں بھی دینے سے گریز نہیں کرتے ہیں کیونکہ انہیں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہے، لیکن تعلیم اگر صرف سکول کے نام سے ہی نہیں ہوتی ہے، خداداد صلاحیتیں بھی بڑی اہم ہوتی ہیں۔ مقابلے کا ایسا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے کہ خداداد صلاحیتیں عمومی نظر میں نظر انداز ہورہی ہیں بلکہ صرف ’برانڈ‘ دیکھا جارہا ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں غریب کا بیٹا اگر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکا تو اس کا کیا نتیجہ آنا چاہیے؟ والدین، معاشرے اور برانڈز نے مل کر تعلیم حاصل کرنے کا شوق رکھنے والے بچے کی زندگی کو مذاق بناکر رکھ دیا ہے، اس حد تک دباؤ کہ بندہ خودکشی کرلے؟ بہت افسوس کی بات ہے۔

تعلیمی میدان میں سامنے آنے والی پیچیدگیوں کو دور کرنے کے لئے جہاں صوبائی حکومت کو سرکاری سکولوں پر اعتماد کو بحال کرانے اورتعلیمی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے۔ وہی پر پبلک سکول اینڈ کالجز کو بھی چاہیے کہ اس ’برانڈڈ‘ تعلیم کو عام اور غریب لوگوں کے لئے بھی آسان کردیں۔ فورس کمانڈر میجر جنرل حسان محمود صاحب کی تعلیم دوستی اور علاقے سے محبت کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کی امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ پبلک سکول اینڈ کالجز کے لئے ہونے والے اس مقابلے کے رجحان کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ فورس کمانڈر بطور ایکس آفیشو پبلک سکول اینڈ کالجز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین کے فرائض بھی سرانجام دیتے ہیں۔ وہ یقینا اس معاملے کو دیکھیں گے کیونکہ میجر جنرل صاحب ذاتی طور پر تعلیم دوست شخصیت ہیں، جس کی تعلیم دوستی پر راقم کا ایک کالم اس سے قبل چھپ چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).