لمبی لمبی ہانکتے مشیر اور وزیر کس کے مہرے ہیں؟


مملکت خداداد پاکستان میں طاقتور اداروں کو ایک کمزور حکومت قابل قبول رہتی ہے، کیونکہ وہ سوال کرنے کی طاقت نہیں رکھتی، اور بنا روک ٹوک کے وہ سب کچھ کرجاتی ہے جو مضبوط حکومت پسندیدہ کام کرنے سے کرنے سے پہلے سوال کرتی ہیں۔ مگر اعلیٰ حکام سوال پوچھنے کی جسارت کرنے والوں کو جواب دینے کے بجائے سبق سکھاتی ہیں۔

اس وقت ایف آئی اے کے دو شاہکار موضوع بحث ہیں۔ ایک اصغر خان کیس سے راہ فرار اور جعلی بنک اکاؤنٹ کیس میں پُھرتیاں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کے زیر انتظام ایف آئی اے نے لکھ کر دیا ہے کہ مشہور اور معروف ”اصغر خان کیس“ کو بند کردیا جائے، کیونکہ شواہد ناکافی ہیں اور اصغر خان کیس 25 سال پرانا کیس ہے دوسرے طرف وہی ایف آئی اے جعلی بنک اکاؤنٹ کیس میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو 1989 کے ایک مقدمے میں سمن کرتا ہے جس میں بلاول بھٹو زرداری کی اس وقت عمر ایک سال تھی۔ مزید یہ کہ ایف آئی اے جعلی بنک اکاؤنٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹاپ لیڈرشپ کو چیئرمین آصف علی زرداری، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری (جو پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ حالانکہ اُنہیں پانچ ماہ قبل لیاری سے ہروایا گیا تھا اور میڈیا کے مطابق پچھلے ہفتے ہونے والے ضمنی بلدیاتی انتخابات میں بلاول بھٹو زرداری کے اسی حلقہ میں پیپلز پارٹی نے تمام کاؤنسلر کی نشستیں جیت لی ہیں۔

بلدیاتی ضمنی انتخابات کے نتائج سمجھنے والوں کے لئے کافی اہمیت رکھتے ہیں ) پیپلزپارٹی خواتین ونگ پاکستان کی صدر فریال تالپور، پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے سندھ کے چیف ایگزیکٹو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ و دیگر کئی وزراء، بیورو کریٹ اور پارٹی رہنماؤں کے نام ای سی ایل میں شامل کردیئے جاتے ہیں۔ اور یہ عمل اس دن کیا جاتا ہے جس دن پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی والدہ محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کی گیارہویں برسی تھی۔

تحریک انصاف کی اس وقت تین صوبوں اور وفاق میں حکومت ہے، سوائے خیبر پختون خواہ کے وفاق اور پنجاب میں کمزور ترین حکومتیں ہیں جو بہت کم ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہیں۔ اور بلوچستان میں کئی جماعتیں ملکر حکومت قائم رکھے ہوئے ہیں۔ واحد سندھ صوبہ ہے جہاں ایک اپوزیشن کی جماعت کے پاس تقریباً دو تہائی اکثریت حاصل ہے کو اگر گرایا گیا تو اس کا اثر یقیناً وفاق کی کمزور حکومت پر پڑے گا، بلکہ جمہوریت کو بھی نقصان پہنچے گا۔

دوسری طرف عمران خان کی 22 سالہ جدوجہد کی مثالیں دی جاتی ہیں کہ عمران خان نے اپنی زندگی کے 22 سال سیاسی جدوجہد کی ہے اور اس 22 سالہ جدوجہد میں سے اصغر خان کیس اگر نکال دیا جائے تو وزیراعظم صاحب کی جدوجہد صفر پلس صفر برابر صفر ہوگی، کیونکہ خان صاحب نے تمام جلسہ جلوسوں دھرنوں میں اصغر خان کیس کا تذکرہ کیا، اور اصغر خان کیس میں پہلا نام نواز شریف کا آتا ہے اور وزیراعظم عمران خان کیونکر اپنے مخالف نواز شریف کے کیس کو بند کرنا چاہتے ہیں۔

کہنے والے کہتے ہیں کیونکہ اب نواز شریف کو دوسرے کیسز میں فکس کردیا گیا اور اصغر خان کیس میں آنے والے باقی نام ان پردہ نشینوں کے ہیں جو سیاست میں ملکی مفادات کے خاطر کچھ بھی کر گزر جاتے ہیں۔ اب اسی اصغر خان کیس کو وزیراعظم کے ماتحت ادارے ایف آئی اے نے بند کرنے کی سفارش کردی ہے یہ سفارش ایف آئی اے کی نہیں بلکہ وزیراعظم پاکستان کی سفارش ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ موجودہ حکومت کو لانے والے اور عددی حساب سے کمزور ترین حکومت جو اپنے چار ماہ سے زائد عرصے میں ایک بھی قانون سازی نہیں کرسکی، کمزوری کے باوجود نہ صرف اپوزیشن کو تڑیاں لگا رہی ہے بلکہ واحد صوبے میں اپوزیشن کی حکومت کو گرانے کی باتیں کررہی ہے، جس سے یہ ثابت ہورہا کہ یہ سب کام موجودہ حکومت نہیں بلکہ وہ کروارہے ہیں جو انہیں لائے ہیں۔ جو بظاھر تو سیاست دان نہیں لیکن اپنے پتے بڑے ہی اچھے انداز سے کھیل رہے ہیں اور اس بات کو مزید تقویت حاصل ہو رہی ہے کہ لمبی لمبی ہانکتے مشیر اور وزیر کسی اور کے ”مہرے“ ہیں۔ جن کا وقت آنے پر سب کو معلوم ہوجائے گا۔

رب نواز بلوچ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

رب نواز بلوچ

رب نواز بلوچ سماجی کارکن اور سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہتے ہیں، عوامی مسائل کو مسلسل اٹھاتے رہتے ہیں، پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ ٹویٹر پر @RabnBaloch اور فیس بک پر www.facebook/RabDino اور واٹس ایپ نمبر 03006316499 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

rab-nawaz-baloch has 30 posts and counting.See all posts by rab-nawaz-baloch