نایاب لوگوں کو لے جانے والے دو ہزار اٹھارہ کو کون سا نام دیں


یقینًا ہر سال رخصت ہوتے ہوتے بہت سے ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے جن کی جدائی ہمیں مار ڈالتی ہے، لیکن 2018 ء اس حوالے سے بہت سفاک اور بے رحم سال رہا کیونکہ جاتے جاتے وہ کچھ ایسے لوگوں کو بھی لے گیا جو ایک مردہ اور تاریک معاشرے میں کم از کم ایک دیپ تو جلاتے رہے۔

سیاست، انسانی حقوق، اور فن وادب سے وابستہ ان لوگوں کی فتوحات گننے کے بجائے ان کی جدوجھد اور کمٹمنٹ اور اپنے کام سے عقیدت کی حد تک محبت ہی کو پیمانہ بنا کر تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ رخصت ہوتے ہوئے سال نے ہمیں کن نا یاب ہیروں سے محروم کیا۔

ریٹائرڈ۔ ایئر مارشل اصغر خان۔ اصغر خان نے بھی خاک اوڑھ لی۔ 70 کے عشرے میں کرشماتی بھٹو منظر پر ابھرا تو ولی خان، بزنجو، نواب زادہ نصراللہ، پیر پگاڑا، مولانا مودودی اور مفتی محمود جیسے لوگوں کی موجودگی میں بھی جو سیاستدان کرشماتی شخصیت اور مقبولیت کے حوالے سے بھٹو کے مقابلے میں آیا وہ اصغر خان ہی تھا۔ اس زمانے میں ان کے کراچی جلسے کو رپورٹ کرتے ہوئے بی بی سی کے نمائندے نے کہا تھا کہ جلسہ گاہ اور اس سے ملحقہ شاہراہ پر تقریبا سولہ لاکھ افراد مو جود ہیں۔

لیکن المیہ دیکھیں کہ یہی اصغر خان کبھی پارلیمنٹ میں نہ پہنچ سکا کیونکہ وہ اس ملک میں رائج اس سیاسی ڈائنامکس کا آدمی ہی نہیں تھا۔ جو شیخ رشید جیسے لوگوں کو بار بار پارلیمنٹ میں تو پہنچا رہی ہے مگر اصغر خان جیسے اجلے آدمی کو نہیں۔

عاصمہ جہانگیر :۔

یحییٰ خان کا تاریک مارشل لاء پورے ملک پر مسلط تھا۔ بنیادی اور انسانی حقوق معطل تھے۔ بہت سے سیاست دان جیلوں میں تھے، جن میں لاہور کے ملک غلام جیلانی بھی تھے۔ اس کی نوجوان اور دلیر بیٹی احتجاج کرتی سڑکوں پر نمودار ہوئی اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اس مشہور مقدمے کو عاصمہ جہانگیر بنام فیڈریشن آف پاکستان کے نام سے شہرت ملی۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایک نہتی اور کم عمر لڑکی نے طاقتور آمر کو پچھاڑ کر رکھ دیا تھا۔

یہ اس لڑائی کا آغاز تھا۔ جو عاصمہ جہانگیر جابرانہ اور غیر جمہوری قوتوں کے خلاف پورے قد اور دلیر کمٹمنٹ کے ساتھ آخری سانس تک لڑتی رہی۔ میں نے کہیں لکھا تھا کہ عاصمہ جہانگیر ایک ایسی موحد تھی جس نے کسی بھی جھوٹے خدا کو ماننے سے سر عام اور ہمیشہ انکار کیا۔

حاجی عبدالوہاب :۔

انسان اپنی تقویٰ اور زہد کی طاقت سے فرشتہ بن سکتا تو مشہور مبلغّ حاجی عبدالوہاب کب کا فرشتہ بن چکا ہوتا۔ تبلیغ زہد اور تقویٰ کا ایسا معیار کہ باید و شاید ۔ خدا پر کامل ایمان ایسا کہ عمر بھر نہ کسی چکا چوند سے مر عوب ہوئے نہ کسی دہلیز و دربار پر سجدہ ریز۔ وہ فقط انسانوں کو اللہ کی طرف بلاتے رہے ان کے دنیاوی مقام و مرتبے سے بے نیاز۔ اپنی فقیرانہ صدا لگاتے لگاتے بہت دور چلے گئے لیکن ایک خلقت کو سوگوار کر کے چھوڑا

کلثوم نواز :۔

مشرف کا غیر جمہوری مارشل لاء نافذ ہو چکا تھا۔ اور منتخب وزیراعظم نواز شریف اپنے خاندان اور پارٹی لیڈروں سمیت پابند سلاسل تھے۔ ایسے میں ایک گھریلو خاتون میدان میں نکل آئی اور فوجی آمریت سے تن تنھا ٹکراتی رہی۔ بہت سے لوگوں کو وہ منظرنہیں بھولا جب اس کی گاڑی کوایک کرین کے ذریعے اٹھایا گیا اور وہ کئی گھنٹے تک معلق لیکن جوانمردی کے ساتھ ڈٹی رہی، کلثوم نواز کو موت ایسے وقت آئی جبکہ وہ خود تقریبًا جلا وطن جبکہ شوہر اور بیٹی جیل میں تھے۔

علی رضا عابدی :۔

خوش شکل خوش لباس اور خوشگفتار علی رضا عابدی کے ساتھ گھر کی دہلیز پر وہی ہوا جو ایسے لوگوں کے ساتھ اس مملکتِ خداد میں ہمیشہ ہوتا رہا ہے۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

زبیدہ آپا :۔

اصل نام زبیدہ طارق الیاس تھا۔ لیکن زبیدہ آپا بنتے ہی ہر گھر کا حصہ بن گئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ زبیدہ آپا نے نہ صرف ہمارا علاج معالجہ بلکہ گھریلو کھانوں کا ذائقہ تک تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ ان کی موت سے یوں محسوس ہوا جیسے گھر کا کوئی ذمہ دار اور دانا بزرگ بچھڑ گیا ہو۔

مدیحہ گوہر :۔

مدیحہ کا اصل کام تھیڑ ہی تھا۔ خصوصًا اجوکا تھیٹر جو وہ اپنے شوہر ندیم کے ساتھ نہ صرف تفریح بلکہ سیاسی اور سماجی شعور فراہم کرنے کے لئے بھی چلاتی رہی تاہم پی ٹی وی کے یادگار ڈراموں میں اس کی لازوال اداکاری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

قاضی واجد :۔

ھلکے پھلکے کرداروں میں بھی ایسی جان ڈالتے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے۔ قاضی واجد پرفارمنگ آرٹ کا ایک تابندہ ستارہ تھا۔ جو اس نحوست بھرے سال میں بچھڑ گیا۔

جمشید مارکر :۔

24 نومبر 1922 ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ رائل انڈین نیوی میں تھے۔ لیکن بعد میں ڈپلومیٹک سروس میں آئے اور بحیثیت ڈپلومیٹ عالمی شہرت حاصل کی لیکن اصل شہرت کرکٹ کمینٹیٹر کی حیثیت سے ملی۔ انگریزی الفاظ کا چناؤ اور ادائیگی کمال کی تھی۔

فہمیدہ ریاض :۔

ضیاءالحق کے بد ترین مارشل لاء میں سب سے توانا اور بلند نسوانی آواز عاصمہ جہانگیر کے بعد فہمیدہ ریاض کی رہی وہ اپنی باغیانہ شاعری سے باز نہ آئی اور جلاوطنی مقدر ٹھہری، پتھر کی زبان اس دور کی شاعری بلکہ احتجاج ہے۔

یہ سطور لکھتے ہوئے۔ 2018 کا منحوس سال غروب ہونے کو ہے جس نے نہ صرف اپنے پیچھے بھٹکی ہوئی لہولہان جمہوریت اور سنسر شپ کی خون آشام بلا کو ہماری دہلیز پر چھوڑ دیا بلکہ ان لوگوں کو بھی ہڑپ کر لیا جو اس تاریک سماج میں کسی دیپ سے کم نہ تھے۔ اور جو ویران موسموں اور ناسازگار حالات میں ہم لوگوں کا حوصلہ بھی تھے۔ اور سہارا بھی!
اور ہاں یاد آیا۔

حضور کریمٌ مکہ سے باہر ایک ویران وادی شعب ابی طالب میں اپنے صحابہ کرام اور خاندان کے ساتھ ابتلاء اور آزمائش کے انتہائی مشکل دن کاٹ رہے تھے۔ تو ایک ہی سال بھوک اور خوف کے موسم میں نبی کریمٌ کے دو توانا دنیاوی سہارے ابو طالب اور حضرت خدیجہ بھی دنیا سے چلے گئے تو دکھ اور بے سہارگی کے اس سال کو حضور کریمٌ نے ”عام الحزن“ (یعنی غم کا سال ) کہا تھا۔
پتہ نہیں ہم سال 2018 کو کون سا نام دیں؟

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).