کیا پیپلزپارٹی میں فارورڈ بلاک بننے جا رہا ہے؟


سال 2018 اختتام پذیر ہوا، سال نوِ 2019 کا آغاز ہوچکا ہے، کوئی نیا سال شروع ہونے پر خوشی سے نہال ہے تو کوئی 2018 کی یادیں تازہ کر رہا ہے۔ سال 2018 تو اب ہمیں صرف کیلنڈر، یادوں اور تصاویر میں ہی یاد رہے گا، اب سب کو 2019 کی فکر ہے کہ یہ سال ان کے لیے کیسا رہے گا۔ خیر سال نے تو 12 ماہ کے بعد تبدیل ہونا ہی ہے پر سال تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ سندھ کی سیاست میں بھی تبدیلی کے اشارے دیکھے جا رہے ہیں۔

11 سال سے برسر اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کو پی ٹی آئی کا چیلنج درپیش ہے۔ گیارہ سال سے بنا خوف و ڈر کے پیپلزپارٹی نے سندھ میں حکومت کی پر سندھ اسمبلی میں 30 سیٹیں رکھنے والی پی ٹی آئی نے حکومت کو خاصا پریشان کردیا ہے، کبھی حکومت گرانے کی باتیں کی جا رہی ہیں کبھی وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، تو کبھی صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کی بھی باتیں ہو رہی ہیں۔

ایف آئی اے کی جے آئی ٹی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد سندھ میں اپوزیشن کی جماعتوں نے حکومت پر سیاسی دباؤ تیز کردیا ہے، سندھ میں اس وقت سیاسی جوڑ توڑ اپنے عروج پر ہے، روٹھے رہنماؤں کو منانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جبکہ وفاداریاں تبدیل کروانے کے لئے بھی آفرز ہو رہی ہیں، تاہم پی ٹی آئی کے رہنما اور رکن سندھ اسمبلی خرم شیرزمان کے بقول اس وقت 20 سے 22 سے درمیان ارکان سندھ اسمبلی پیپلزپارٹی میں فارورڈ بلاک بنانے کے لیے تیار ہیں اور یہی ارکان حکومت کی تبدیلی میں ان کا ساتھ دیں گے۔ جبکہ اسی قسم کے اشارے جی ڈی اے اور ایم کیو ایم بھی دی رہی ہے تاہم جی ڈی اے اور ایم کیو ایم سمیت خود پی ٹی آئی کے ارکان نے گورنر راج کی مخالفت کی ہے۔

اس وقت سندھ میں سیاسی جوڑ توڑ اپنے عروج پر ہے اور اس ساری جوڑ توڑ کا مرکز خانپور مہر ہے، پی ٹی آئی نے سیاسی وفاداریاں تبدیل کروانے کی ذمہ داری علی گوہر مہر پر رکھی ہے، یہ وہی علی گوہر مہر ہیں جو ہوا کے رخ پر اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں، کبھی مشرف کے اہم اتحادی مانے جاتے تھے، پھر 2013 کے انتخابات سے پہلے پیپلزپارٹی میں شامل ہوکر ضلع گھوٹکی کی 2 قومی اور 2 صوبائی نشستیں اپنے اور بھائیوں کے لئے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، جبکہ ضلع کونسل کی چیرمین شپ بھی اپنے ہی بیٹے کو دلائی۔ مگر اس وقت وہ جی ڈی اے کے ایم پی اے ہیں عام انتخابات سے قبل فریال تالپور سے اختلافات کی وجہ سے وہ پیپلزپارٹی سے الگ ہوگئے تھے پر ان کے ایک بھائی راجا خان مہر پیپلزپارٹی کے ایم پی اے اور کزن سردار محمد بخش مہر مشیر ہیں۔

اگر ہندسوں کی بات کی جائے تو اس وقت پیپلزپارٹی کے پاس 99 ایم پی ایز موجود ہیں جبکہ پی ٹی آئی، جی ڈی اے، ایم کیو ایم اور مذہبی جماعتوں کے 3 ایم پی ایز کو ملا کر تعداد 67 بنتی ہے اس لحاظ سے حکومت گرانا کافی مشکل نظر آتا ہے، وزیر اعلیٰ منتخب کروانے کے لیے 85 ارکان کا ہونا لازمی ہے جبکہ اپوزیشن کو اس وقت 18 ارکان کی ضرورت ہے۔ چنانچہ پیپلز پارٹی کے 18 ارکان کو توڑنا مشکل لگتا ہے، ہاں اگر فرق 5 سے 8 ایم پی ایز کا ہوتا تو بازی پلٹنے میں دیر ہی نہ لگتی۔

گذشتہ عام انتخابات میں کئی مخالف پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے جن میں ٹھٹھہ کے شیرازی اور تھر سے ارباب غلام رحیم کے بھتیجے ارباب لطف اللہ شامل ہیں، اب اگر اس طرح حساب لگایا جائے تو پیپلز پارٹی کے کچھ ایم پی ایز ناراض تو ہیں پر اپنی ناراضگی کا اظہار نہیں کر سکتے، عام انتخابات سے قبل مخدوم جمیل الزمان کے بھی قیادت کے ساتھ اختلافات منظر عام پر آئے تھے جنہیں بعد میں زرداری صاحب نے سمجھا کر ختم کروایا تھا، لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ مخدوم جمیل الزمان نے وزارت اعلیٰ کی کرسی کی مانگ کی تھی۔ بات صرف یہیں تک نہیں پر پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما میر ہزار خان بجارانی کے بیٹے شبیر علی بجارانی نے بھی انتخابات میں بلا مقابلہ کامیاب ہونے کے بعد ہنگامی طور پر پریس کانفرنس کرکے پیپلزپارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا جسے بعد میں بلاول نے منا لیا تھا۔

اسی طرح اگر فارورڈ بلاک بنتا ہے تو ٹھٹھہ کے شیرازی، سجاول سے محمد علی ملکانی، ارباب رحیم کے بھتیجے ارباب لطف اللہ، مہر برادران اور کشمور کے احسان جان مزاری اس فارورڈ بلاک کا حصہ بن سکتے ہیں، البتہ ملک اسد سکندر بھی وفادار تبدیل کرنے میں دیر نہیں کریں گے جبکہ حیدرآباد والے جلسے میں شرکت نہ کرکے ملک اسد سکندر نے افواہوں کو کسی حد تک مضبوط کردیا ہے۔

پہلے حکومت گرانے، پھر گورنر راج لگانے والی پی ٹی آئی اب وزیر اعلیٰ کی تبدیلی پر اٹکی ہوئی ہے، جے آئی ٹی میں نام آنے کے بعد کرپشن کی وجوہات کی بنا پر مراد علی شاہ کو ہٹانے کا مطالبہ متحدہ اپوزیشن کا بھی ہے۔ اس سلسلے میں پیپلزپارٹی نے تو مراد علی شاہ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے پر ممکنہ طور پر مراد علی شاہ کی جگہ ناصر حسین شاہ کو وزارتِ اعلیٰ کا قلمدان سونپنے کی باتیں بھی سننے میں آ رہی ہیں۔ سندھی زبان کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ ”صابو ہار لاتھا ڈنے ہار پاتا“ جس کا مطلب ہے صابو نے ہار اتارے اور ڈنو نے ہار پہنے۔ ایک شاہ کے جانے کے بعد پہر وزیر اعلیٰ ایک شاہ ہی ہوسکتا ہے جبکہ اس سے پہلے بھی وزیر اعلیٰ شاہ رہ چکے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی والے علی گوہر مہر کی بدولت پیپلزپارٹی میں کتنی دراڑیں ڈال سکتی ہے اور کتنے ارکان کی وفاداریاں تبدیل کرواسکتی ہے، کیا پیپلزپارٹی کے اپنے ایم پی ایز بغاوت کرسکتے ہیں، یا پھر سب کچھ ویسے ہی چلتا رہے گا۔
لکھاری سندھ یونیورسٹی کے شعبہ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹیڈیز سے پاس آؤٹ ہیں، سیاست و فلسفے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).