قلمی دوستی سے فیسبک فرینڈشپ تک کا سفر


کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چند غیر معمولی ذہین جینئس لوگوں نے اپنے دماغ کا کچھ ایسا استعمال کیا اور ایجادات کیے کہ باقی لوگوں کے دماغ کو معطل تو نہیں کم متحرک ضرور کر دیا۔

پہلے متوسط اور نچلے درجے کے کاروباری لوگوں کی زبان پر جوڑ گھٹاؤ ضرب تقسیم ہوتے تھے لیکن کیلکولیٹر کی ایجاد نے ان کے ذہن کا ایکسرسائز تقریباً ختم کردیا۔ جس طرح موبائل فون کی آمد سے ذہن میں محفوظ وہ تمام رابطے کے نمبر جو ازبر تھے اب ذہن پر زور ڈالنے پر بھی حاضر نہیں ہوتے۔ بلکہ بسا اوقات اپنے گھر والوں کے نمبر بھی یاد نہیں آتے۔

تحریر سے تصویر بنانے کے عمل کو قلمی خاکہ کہتے ہیں۔ غالبا ستر کی دہائی میں ادبی میگزین اور رسالوں نے قلمی دوستی کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ جس میں خواہش مند شخص مطلوبہ دوست کے بارے میں لکھے گئے قلمی خاکے سے اس کی ایک شبیہ اپنے دماغ میں بساتا تھا اور اس تحریری تفاصیل کی روشنی میں طے کرتا تھا کہ وہ کس قسم کی پرسنیلٹی ہے۔ اس لئے کہ دوستی کے خواہشمند اشخاص کی تفاصیل جیسے عمر، تعلیم، مشغلہ، شوق، ہوبی، پسندیدہ کتابیں، فلمز، خط و کتابت کا پتہ گھر کا پتہ وغیرہ دیے جاتے تھے۔

اس میں ایسے خاص دوست کی تصویر اپنے دماغ میں نقش کرنے کے لئے اچھی خاصی ذہنی ایکسرسائز کرنے کے بعد بھی بندہ /بندی شس و پنج میں رہتا/رہتی۔ اس دور میں بھی آج کے فوٹو شاپ امیج کی طرح بعض لوگ دروغ بیانی سے کام لیتے تھے۔ اسی لئے جب دوستی پروان چڑھتی اور خط و کتابت سے ایک قدم آگے کے مرحلہ میں داخل ہوتی تو ملاقات طے ہوتی مگر بسا اوقات سفر کی مشقتیں اٹھانے کے بعد اس سے سامنا ہوتا تو بے ساختہ ان کی زبان سے نکلتا (عکسی مفہوم میں ) : ”جو بات تجھ میں ہے تیری تصویر میں نہیں“۔ اور کہتا کہ صحیح کہا ہے کہنے والے نے ”بند ہے یہ مٹھی تو لاکھ کی کھل گئی تو خاک کی۔ “۔

تقریبا پوری دنیا میں اخبار و رسائل سے شغف رکھنے والے لوگوں نے قلمی دوستی سے بھر پور استفادہ کیا اور اپنی پسند کے ملکوں کے لڑکوں / لڑکیوں سے دوستی کرکے بعض نے شادیاں کیں۔ ہمارے ملک میں بھی نوعمر لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے یہ صفحہ کافی پرکشش ہوتا تھا۔ بعض بڑی عمر کے لوگوں نے بھی اسے اپنی ذہنی عیاشی کے لئے تسکین کا وسیلہ سمجھا اور بنایا اب چونکہ اس زمانے میں ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی ٹیلیفون ہر ایک کو میسر نہیں تھا اس لئے خط (پوسٹ کارڈ انلینڈ لیٹر اور انویلپ حسب ضرورت اور حسب پیش قدمی در دوستی) کے ذریعے جو باتیں بتائی جاتیں صحیح سمجھی جاتی تھیں مگر کبھی کبھی زبردست صدمہ سے بھی دوچار ہونا پڑتا تھا جس طرح آج کل سوشل میڈیا پر دوستی کرکے فراڈ کرتے ہیں۔

ممبئی سے کانپور تک کے سفر کی اذیت برداشت کرنے کے بعد اسٹیشن پر جن سے ملاقات ہوئی انہیں د یکھتے ہی حیرت زدگی میں آہ منہ سے نکلی مگر اپنی سبکی مٹانے کے لئے ادھر ادھر کی بات کرتے ہوئے ہوٹل کا رخ کیا چیک ان کیا اس کے بعد میزبان سے شام کو ملاقات کا وقت طے ہوا۔ مگر دل کے ارماں آنسوؤں میں بہنے سے قبل اس نے شہر چھوڑ کر جانے میں عافیت سمجھا۔ قلمی دوستی کا ہی نیا شمارہ فیس بک فرینڈشپ ہے۔ قلمی دوستی میں قلمی خاکہ کی بنیاد پر انجان ”دوست“ کا امیج بنایا جاتا تھا مگر فیس بک فرینڈشپ میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ لوگ متعارف ہوتے ہیں ذہن پر زیادہ زور ڈالنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے اس لئے کہ ڈیجیٹلی ساری تفاصیل ؛ قد و قامت، جسامت، وزن، آنکھیں جھیل جیسی یا پتھریلی، چہرہ بیضوی یا کتابی، ناک ستواں یا۔ یعنی جسم کے ہر نشیب و فراز curves اور بال کے cut and curls جو ہے وہ بھی اور جو نہیں ہے وہ اسپیشل ایفیکٹ سے پروجکٹ کر کے فوٹو شوپ کے توسط ہیش کی جاتی ہیں۔

اس انفارمیشن ٹیکنالوجی نے امریکہ اور یورپ بلکہ ان مقامات سے جن کا کبھی نام بھی نہیں سنا گلوب میں ڈھونڈنے سے پتہ چلا کہ ہونولولو اور ٹمبکٹو اس کرہ ارض کے کس گوشے میں واقع ہیں وہاں سے بھی لوگ فرینڈشپ نبھانے ہندوستان میں پنجاب اور بنگال کے دور دراز انجان گاؤں آئے۔ پچھلے دنوں چند چند سفید فام خواتین نے معمولی پڑھے لکھے آٹو رکشہ ڈرائیور سے تو کوئی اور کسی معمولی ہیشہ والوں سے شادی کی جس کی اطلاع اخبارات اور سوشل میڈیا نے دی۔ قلمی دوستی کے دور میں بھی اس طرح کا استفادہ یورپ کی خواتین نے کیا۔ بے شمار فرینچ اور جرمن اسیکنگ عرب نوجوان مراکش تونس اور الجزائر سے دوستی نبھانے یورپ گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).