یکجا ہوں، آخر کس بنیاد پر؟


انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ کئی رشتے استوار کرتا ہے۔ کچھ وہ خود کرتا ہے اور کچھ قدرتی طور پر اس کے ہاتھ میں نہیں ہوتے۔ جیسے انسان کس رنگ و نسل میں پیدا ہوگا اس کی زبان کیا ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ یہ رشتے اور پہچان جب انسان کی شناخت سے آگے نکل کر انسان کی بقاء کا مرکز بن جائے تو عصبیت جنم لیتی ہے۔ اس عصبیت میں انسان اپنے ایک چھوٹے سے دائرے کو بچانے اور پروان چڑھانے کی ہی کوشش کر رہا ہوتا ہے جو محض اس کے تعلق اور اس کی پہچان کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی۔ عصبیت کے فروغ کے ساتھ ہی انسان میں اپنی اور اپنی قوم و لسان کی قیادت کا جذبہ پھلتا پھولتا ہے جس سے وہ دوسری تمام اقوام کو کمتر و کم درجہ سمجھنے لگتا ہے۔ قومیت و عصبیت انسان کو زندگی کے حوالے سے رہنمائی نہیں کرتی بلکہ محض چند اشیاء و رواج کو اس کی قوم سے جوڑ کر اسی کے گرد محدود کر دیتی ہے۔

دنیا کے ہر ملک کی طرح پاکستان میں بھی مختلف رنگ و نسل اور مختلف زبانیں بولنے والے افراد رہتے ہیں۔ ان افراد کے اندر بھی وہی قومیت و عصبیت کا جذبہ پروان چھڑتا ہے۔ بنیادی طور پر یہاں سندھی بلوچی پنجانی سرائیکی پشتون گلگتی کشمیری اور بہت سی اقوام و لسان سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں جو اپنی ثقافت کا پرچار بھی کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انھیں کس بنیاد پر یکجاء کیا جائے؟

اس کے جواب میں ہمیں سمجھ یہ آتا ہے کہ یہ سب ایک ہی ملک میں رہنے والی مختلف اقوام ہیں اور وہ ملک پاکستان ہے۔ تو اگر ان میں قدر مشترک پاکستان ہے، ان کو اسی بنیاد پر یکجاء ہونا چاہیے اور اسی کی خوشنودی اور ترقی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یہاں سے قومیت سے اوپر وطنیت کا جذبہ پروان چڑھتا جو پھر اپنے اندر ایک زندگی کی چمک نہیں رکھتا۔ کیونکہ پاکستانی ہونے کے تصور سے انسان کو اپنی زندگی گزارنے اور اس سے متعلق سوالات کے جواب نہیں ملتے۔

وطنیت اپنے اندر ایک مبہم سوچ ہے جس کی شدت ہمیشہ بیرونی خطرات کے پیشِ نظر ابھر جاتی ہے۔ لیکن جیسے ہی یہ خطرہ ٹل جائے تو جذبہ بھی ماند پڑنے لگتا ہے۔ جسے جگانے کے لیے پھر کسی نشیب و فراز کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لیے اس جذبے کو ابھارے رکھنے کے لیے کسی نہ کسی دشمن کی ضرورت رہتی ہے جو وطن پرستوں میں ایک خوف برپاء رکھے تاکہ انہیں یکجاء کیا جاسکے۔ وطنیت انسان کی زندگی کے حل نہیں دیتا اور انسان کے معاملات میں اس کی رہنمائی نہیں کرتا۔ زندگی میں معاشی معاشرتی حکمرانی تعلیمی اور قانونی میدان میں کیسے ترقی حاصل کی جائے، وطنیت کا نظریہ اس پر مکمل خاموشی کا مظاہرہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے جب انسانی بقاء خطرے میں آجائے تو محب الوطن بھی وطن کو خیرباد کہنے میں کوئی آر محسوس نہیں کرتا۔

مختلف رنگ و نسل کے انسان کو یکجاء کرنے کے لیے یمیشہ ایک نظریے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو ان کی زندگی کے تمام مسائل کے حل پیش کر سکے، دل کو اطمینان پہنچائے اور ذہنی افکار پر پورا اترے۔ یہی وہ واحد نقطہ ہے جس پر تمام رنگ و نسل اور کسی بھی تہذیب سے تعلق رکھنے والے انسانوں کو نہ صرف یکجاء کیا جاسکتا ہے بلکہ انھیں ترقی کی راہ پر گامزن بھی کرسکتا ہے۔ یہی بنیاد ملک و قوم کی اہم کنجی ہے جس کے بعد قومیں اپنے عروج پر پہنچتی ہیں۔ ایک ایسا نظریہ جو انسان کی تمام جبلتی حاجات کو فطرت کے مطابق پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا جس سے باقی تمام معاملات بھی کسی طور اپنی فطرت میں اثر انداز نہ ہوں۔ اگر یکجاء ہوں تو پھر مضبوط بنیاد پر ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).