چوہدری فواد پر بھی توہین عدالت کی شق نافذ کریں


انصاف پسند اور عدالتوں کا احترام کرنے والی حکومت نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے حکم کے باوجود منی لانڈرنگ اور فیک اکاؤنٹ کیس میں 172 افرادکے نام ای سی ایل سے نہ ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور مراد علی شاہ وغیرہ کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا فیصلہ ’اصولی‘ تھا۔ تاہم کابینہ نے سپریم کورٹ کے حکم پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ البتہ ان ناموں کو فوری طور پر ای سی ایل سے ہٹانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی معاملہ کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرے گی جس کے بعد کابینہ پھر سے غور کرے گی کہ کون اس قابل ہے کہ اسے ای سی ایل سے ہٹا دیا جائے اور سفر کرنے کا حق واپس کر دیا جائے۔

وزیر اطلاعات نے کابینہ کی کارروائی کے بارے میں جو رپورٹ پیش کی ہے، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھی عدالتوں کے احترام اور ان کے فیصلوں کو اصولی قرار دینے کے جو دعوے کرتے تھے، وہ اس وقت تک درست تھے جب تک جوڈیشل ایکٹو ازم کی چھڑی مخالف پارٹی کا راستہ روکنے اور سابقہ حکومت اور اس کے وزیروں و مشیروں کو رسوا کرنے میں فعال کردار ادا کررہی تھی۔ تاہم سپریم کورٹ کی طرف سے تحریک انصاف کی حکومت کے لئے راستہ ہموار کرنے کے اس عظیم کارنامہ کے بعد جب اس ایک معاملہ میں اسی مزاج کا مظاہرہ موجودہ حکومت کے لئے کیا گیا ہے تو حکومت کا نمائیندہ کابینہ کے فیصلہ کو ’اصولی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے ججوں کو یہ سبق یاد دلانے کی کوشش کررہا ہے کہ کس طرح سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار ای سی ایل پر نام نہ ہونے کی وجہ سے ’فرار‘ ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا اور اب عدالتوں کی طرف سے بھگوڑا قرار پانے کے باوجود، وہ واپس آنے اور اپنے ’جرائم‘ کا حساب دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔

دو روز قبل سپریم کورٹ کی طرف سے ایک جے آئی ٹی رپورٹ پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جب یہ کہا گیا تھا کہ یہ تو محض رپورٹ ہے۔ اس پر تو عدالت نے کوئی فیصلہ ہی نہیں دیا۔ اس کی بنیاد پر حکومت کیسے ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ کا نام ای سی ایل پر ڈال سکتی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار جو نواز شریف اور ان کی حکومت کے اہلکاروں کے خلاف تبصروں اور فیصلوں کی وجہ سے عمران خان کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے تھے اور جن کے انقلابی فیصلوں اور اقدامات کا وزیر اعظم اس قدر احترام کرتے تھے کہ انہوں نے اقتدار میں آتے ہی چیف جسٹس کے ’ڈیم فنڈ‘ کو وزیر اعظم فنڈ میں تبدیل کرتے ہوئے اپنی تمام گڈ ول کو استعمال کیا اور بیرون ملک پاکستانیوں سے اس فنڈ میں ایک ہزار ڈالر فی کس چندہ دینے کی پر زور اپیل کی۔

تاہم یوں لگتا ہے کہ احترام اور اتفاق رائے کا تعلق، مخالفین کے خلاف عدالتوں کو استعما ل کرنے اور ڈیم فنڈ میں چندہ اکٹھا کرنے کی قانونی یا ’غیر قانونی‘ مہم جوئی تک ہی محدود تھا۔ جب سپریم کورٹ یا اس کے سربراہ ثاقب نثار، وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ یا آصف زرداری کے بارے میں کوئی اصولی بات کریں گے تو فواد چوہدری کابینہ کے اختیار کردہ اصول کو اس کے مقابلے میں لا کر باور کروانے کی کوشش کریں گے کہ سپریم کورٹ ہمیشہ درست نہیں ہوتی۔ فواد چوہدری کا یہ بیان سپریم کورٹ کے حکم کر مسترد کرنے کے مترادف ہے۔ وزیر اطلاعات نے چیف جسٹس کو یہ پیغام دینے کی کو شش کی ہے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھیں۔ حکومت کو اپنا کام کرنے دیں۔

اور کیوں نہ ہو۔ اب ایک ایسی پارٹی اور اس قائد کے حکومت ہے جو ایک پیج پر ہونے کا دعوے دار ہے اور جو ابھی تک قومی مفاد کے اسی ایجنڈے کا علم بلندکیے ہوئے ہے جو اسے پرچہ ترکیب استعمال کے طور پر لکھ کر دیا گیا ہے۔ فواد چوہدری نے یوں تو صرف یہ سچ ہی بیان کیا ہے کہ سپریم کورٹ اور اس کے چیف جسٹس کسی غلط فہمی میں نہ رہیں، اب وہ پارٹی ملک میں حکمران نہیں ہے جو اداروں کے ساتھ انتشار پیدا کر کے خود اپنے لئے اور پوری قوم کے لئے مسائل پیدا کرتی تھی۔ اب تو پسندیدہ اور ملکی مفاد کو سر فہرست رکھنے والوں کی حکومت ہے جو حضرت نوح کی روایت کے مانند انصاف کی ایسی کشتی کی کھیون ہار ہے کہ جس پر سوار ہونے والوں کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اور جو لوگ چھلانگ لگا کر اس پر سوار نہ ہوسکیں ان کے گناہ قوم کے مسائل کی وجہ قرار پاتے ہیں۔

آخر سپریم کورٹ بھی تو قومی مفاد کے اسی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے کبھی ڈیم فنڈ میں چندہ کے لئے پیش ہونے والے ملزموں سے ’سودے بازی‘ کرتی ہے اور کبھی اس کے سربراہ سڑکوں کی صفائی، ہسپتالوں کی کارکردگی اور زمینوں کی واگزاری کے لئے ہر حد تک جانے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ پھر ایسی کون سی آفت آگئی کہ قوم کی دولت لوٹنے والوں کے بارے میں چیف جسٹس صاحب کی رگ انصاف یوں پھڑک اٹھی کہ انہوں نے ’انصافیوں‘ کی حکومت کو ہی للکار دیا۔

لیکن یہ حکومت بھی ڈرنے والوں میں سے نہیں ہے۔ اگر عمران خان کل زیریں عدالتوں کے احکامات کو نظر انداز کرکے سرخرو ہو چکے ہیں تو ان کی کابینہ سپریم کورٹ کے ایک مشورہ کو مسترد کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہو گی۔ آخر قومی مفاد کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں اور یہ تقاضے نہ قانون کی کتابوں میں درج ہوتے ہیں اور نہ ہی ملک کا آئین ان کی تشریح کرسکتا ہے۔ یہ تو ایسا سبق ہے کہ جسے بھلانے والے گمراہ کہلاتے ہیں لیکن جو اسے یاد رکھے، سرفرازی اس کا مقدر ہوتی ہے۔ قوم کے مفاد کا کون سا سبق ہے جو فواد چوہدری کے باس نے ازبر نہ کیا ہو۔ گو عمران خان کو اس سبق کو پڑھنے اور یاد کرنے میں 22 برس لگے لیکن اب تو وہ فرفر اسباق محبت کو ہر جگہ پورے جوش و خروش سے دہراتے ہیں اور داد پاتے ہیں۔

فواد چوہدری نے کچھ ایسا غلط بھی نہیں کہا۔ انہوں نے ایک قومی سچائی کو ہی تو بیان کیا ہے۔ اب اس کا نشانہ اگر سپریم کورٹ کا بیان کردہ اصول بنتا ہے تو حکومت کا یہ ترجمان یا قومی مفاد کی نگرانی پر مامور کابینہ تو اس اصول سے رو گردانی نہیں کرسکتی جو اسے ازبر کروایا گیا ہے کہ چوروں کو ہر قیمت پر پکڑنا ہے۔ اور ہر اس شخص کو چور، ڈاکو، لٹیرا اور غاصب قرار دینا ہے جو سیاسی طور پر اس ایجنڈے کے لئے خطرہ بن سکتا ہو جس کی تکمیل کے لئے بصد مشکل تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں لایا گیا ہے۔

اب اگر سپریم کورٹ کسی لمحاتی جوش میں اس اصول کو پس پشت ڈال رہی ہے تو وزیر اطلاعات کا توکام ہی معلومات فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے تو بس یہی بتایا ہے کہ حکومت کا فیصلہ اصولی ہے اور اسے مسترد کرنے والا سپریم کورٹ کا فیصلہ غلط ہے۔ سپریم کورٹ کا احترام کرنے والی حکومت کے وزیر نے یہ احتیاط بہر طور کی ہے کہ انہوں نے چیف جسٹس کی طرف سے جے آئی ٹی رپورٹ پر پونے دو سو افراد کے نام ای سی ایل پر ڈالنے کے فیصلہ پر نکتہ چینی کرنے کے رویہ کو براہ راست بے اصولی یا خدا نخواستہ ’ملک دشمنی‘ قرار نہیں دیا۔ ورنہ موجودہ حکومت پر قومی مفاد کے تحفظ کا وفور اس قدر شدید ہے کہ وہ اس راستے میں آنے والی کسی بھی دیوار کو مسمار کرنے میں دریغ نہیں کرتی۔

ماضی قریب میں سپریم کورٹ اور اس کے ججوں کی توہین کے بارے میں چیف جسٹس کے جوش و جذبہ کو پیش نظر رکھا جائے، پھر تو یہ قیاس کرنا پڑے گا کہ چیف جسٹس پیمرا کو فواد چوہدری کی پریس کانفرنس کی ویڈیو ریکارڈنگ پیش کرنے کا حکم دیں گے اور پھر فواد چوہدری کو عدالت میں طلب کرکے وہ ریکارڈنگ چلا کر ان سے دریافت کریں گے کہ ’کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ آپ نے سپریم کورٹ کے حکم اور چیف جسٹس کی باتوں کو بے اصولی پر مبنی قرار دے کر انہیں سبق سکھانے کی جرات کیسے کی‘ ۔

کیا گردش فلک یہ منظر دیکھ سکتی ہے؟ چیف جسٹس اگر دو ہفتے میں ریٹائر ہونے والے ہوں اور انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے نتیجہ کی بھی فکر ہو تو ایسا ممکن تو ہے۔ جب وہ فوج کو للکارتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ ’جاؤ، جاکر سرحدوں کی حفاظت کرو۔ کہیں دیکھا ہے کہ فوج ہاؤسنگ اسکیمیں بنا کر شہیدوں کا نام بیچ رہی ہو‘ ؟ ایسے نڈر ہوجانے والے جج سے کیا بعید کہ کل کو وہ فواد چوہدری کو ناک رگڑ کر معافی مانگنے پر مجبور کردے۔ بھلے ثاقب نثار 18 جنوری کو عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے لیکن ابھی تو وہ پورے چیف جسٹس ہیں اور جلال میں بھی ہیں۔

لیکن چیف صاحب کا جو جلال کل تک وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے پر وفاقی کابینہ کے خلاف تھا، اس کا رخ اب سندھ حکومت کی طرف ہو چکا ہے۔ ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران انہوں نے کہہ دیا ہے کہ ’یہ دنیا کی واحد حکومت ہے جو جانتی ہے کہ اس کی زمینوں پر ناجائز قبضہ ہؤا ہے لیکن وہ اسے واگزار کروانے کا اقدام نہیں کرتی‘ ۔ لگتا ہے کہ ان لوگوں سے کار حکومت انجام نہیں دیے جاتے۔ اگر یہ لوگ کام نہیں کرنا چاہتے تو حکومت چھوڑ کر ملک سے باہر چلے جائیں ’۔

مراد علی شاہ اور آصف زرداری نے دو روز قبل چیف جسٹس کی باتیں سن کر جو گھی کے چراغ جلائے تھے، آج ان میں نا امیدی اور مایوسی کا پانی ڈالا گیا ہوگا۔ گویا چیف جسٹس کو بھی ذرا تاخیر سے اندازہ تو ہو گیا ہے کہ چور بازاری ہو رہی ہے اور ایسے لوگوں کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اب لوگوں کے ووٹ دینے کا قصہ دہرانے کی کوشش کرنا تو فضول ہوگا۔ کیوں کہ یہ بیانیہ ’آؤٹ آف ڈیٹ‘ ہو چکا ہے۔ اب تو کرپشن اور قوم کو لوٹنے کا بیانیہ ’ان‘ ہے۔ حکومت کے ترجمان اور چیف جسٹس اسی مقبول بیانیہ کا ورد کررہے ہیں۔

عام آدمی کو بہر حال اتنی الجھن رہے گی کہ چیف جسٹس کا بیان کردہ اصول درست تھا یا جو اصول اور ’سچ‘ وزیر اطلاعات نے بیان کیا ہے، وہ ٹھیک ہے۔ چیف صاحب جاتے جاتے فواد چوہدری کو توہین عدالت کا نوٹس بھیج دیں تو یہ الجھن دور ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali