ڈاکٹر عافیہ کو رہائی کیوں نہیں ملتی!


ڈاکٹر عافیہ صدیقی وہ عورت ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جعلی کیس میں سزا سنانے کے بعد ایک امریکی جیل میں عمر قیدکی پاداش میں زندگی کے باقی ماندہ دن گزار رہی ہے۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ 2016 میں سی آئی اے کا ریمنڈ ڈیوس نامی ایک ایجنٹ قتل کے الزام میں پاکستان میں گرفتار ہوا جسے عافیہ کے بدلے میں خفیہ طورپر رہائی ملنی تھی لیکن اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس معاہدے کو رکوا دیا۔ کبھی کہا جاتا ہے امریکی ایڈیٹر گورڈن ڈف نے یہ راز آشکار کیاکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اغوا کاروں کو پچپن ہزارڈالر ادا کیے گئے تھے۔

ان دعوؤں کے بدلے میں لوگوں میں غم و غصے کی تشویش پیدا ہوئی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پہ ان گنت کالم لکھے گئے، سوئی ہوئی حکومت اور مختلف ضمیروں کو جگانے کی بہت کوششیں کی گئیں مگر سب بے سود ثابت ہوئیں۔ لوگ کہتے ہیں کیا یہ ایک پاکستانی شہری کی قیمت ہے؟ قوم کی ایک باعزت بیٹی کو 55 ہزار ڈالر کی معمولی رقم کے بدلے بدعنوان لوگو ں نے آمرانہ نظام میں فروخت کردیا جس سے ہمارے قومی وقار کو یقینا دھچکا لگا۔ عافیہ کی رہائی کے لیے ان کی سگی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ”فری عافیہ موومنٹ“ کے نام سے تحریک شروع کی۔

جِسے بے شمار لوگ مل کر چلا رہے ہیں جس میں زندگی کے مختلف شعبۂ ہائے جات کے لوگ شامل ہیں۔ عافیہ موومنٹ کے ترجمان کا کہنا ہے ”ہمار ا قومی وقار برائے فروخت نہیں“۔ ہم اپنے نئے وزیر اعظم عمران خان سے التجا کرتے ہیں کہ وہ ماضی میں کہی گئی باتوں پر عمل کرتے ہوئے عافیہ کو رہائی دلوائیں اور امریکہ کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کریں۔ ڈاکٹر عافیہ پہ بہت سی غزلیں اور نظمیں بھی کہی گئیں۔ عافیہ کی رہائی کے لیے خواتین بھی کسی طرح پیچھے نہیں رہیں، انہوں نے پوری سچائی اور ہمدردی سے اپنے قلم اُٹھائے اور اس مظلوم ہمدرد، سائنس دان کے لیے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے لکھا۔

عافیہ کی بے چارگی، بے بسی اور معصومیت پہ ایسے ایسے نوحے لکھے جن کو پڑھ کر بے اختیار آنکھوں سے اشک بہنے لگتے اور زبان پر اس کی رہائی کے لیے دعائیں جاری ہوجاتیں۔ خواہ ملکی مسائل ہوں یا سماجی خواتین نے ہر آڑے وقت میں مشکلوں کو حل کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈالا۔ ماں، بہن اور بیٹی ہونے کے ناطے ہر عورت عافیہ صدیقی کے درد کو خوب سمجھتی ہے۔ اس نے دل خراش الفاظ کا سہارا لیتے ہوئے اس کے حق میں لکھا اور خوب لکھا، دعائیں بھی بہت کیں۔

پھر کیا وجہ ہے کہ عافیہ صدیقی کی رہائی ابھی تک پسِ دیوار ہے۔ ان دیواروں سے آوازیں ٹکرا ٹکڑا کر لوٹ آتی ہیں۔ مَیں بتاتی ہوں میرے مذہب نے مرد اور عورت دونوں کو اپنے اپنے دائرہ عمل میں برابری عطا کی ہے۔ فوقیت صرف اس کو حاصل ہے جو متقی اور پرہیزگار ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ عافیہ موومنٹ جو واٹس ایپ پہ ایک گروپ کی صورت میں چل رہی ہے اس کے مرد ممبران شاید ہر عورت کو پریشان کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ شاید یہ عورتیں جو اس تحریک کا حصہ ہیں وہ مفت کا مال ہیں کسی طرح بھی ان کی تعریف کرکے انہیں ایذا کا نشانہ بنا لے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ اُلٹا شاید وہ اپنی تعریف سُن کر خوش ہوں۔

کان کھول کر سب سُن لیں ایسا ہرگز نہیں عورت اگر کوئی کام کرتی ہے تو یہ اس کی صلاحیت یا کوئی مشن ہوتا ہے۔ ہماری تہذیب اس چیز کی اجازت نہیں دیتی کہ عورت کو کمزور یا نادان سمجھ کر اُسے بے وقوف بنایا جائے۔ ہمارے ہاں جنس، خوب صورتی، عورت اور ادب شایدمفت کا مال سمجھا جاتا ہے۔ مَیں نے بچپن ہی سے عورت کو زیادہ کام کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ مگر پھر ایک قابلِ رحم بات یہ ہے کہ اگر اس عورت کو کوئی کسی بھی وجہ سے پریشان کرے تو اسے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ خاموش رہو۔

کیوں۔ ؟ جب اس کا کوئی قصور نہیں، اس نے کسی کو رجھانے کی کوئی ادنیٰ سی کوشش بھی نہ کی ہولیکن مرد اپنی بے غیرت حرکتوں سے اس کی حوصلہ شکنی کرنا چاہے تو اس کے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے بدعائیں اور بُرے کلمات ہی نکلیں گے۔ تو صاحب! یہ ہے وجہ جس کی وجہ سے عافیہ کو رہائی نہیں مل پارہی کیونکہ آپ دوغلے پن کالبادہ اوڑھے بے غیرتی کی آگ سے عافیہ موومنٹ کی شمیں روشن کیے ہوئے ہیں۔ اس لیے عافیہ کے لیے اللہ آپ کی مدد نہیں کرتا کہ آپ قوم کی باقی بیٹیوں اور بہنوں کو اپنی بہن نہیں سمجھتے۔

جب کوئی غیر مرد اپنی گھٹیاحرکتوں کی وجہ سے قوم کی بیٹیوں کی عزت کا پاس نہیں کرے گا تو بتائیے کہ کیسے ممکن ہے کہ خدا آپ کی مدد کرے۔ قرآن میں اللہ فرماتا ہے ”عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ “ یہ سبق تو ہمیں بہت چھوٹی عمروں میں سکھایا جاتا ہے پھر ہم اپنی بد نیتی کو کیا نام دینا چاہیں گے؟ پھر ہم اپنی لمبی رکھی ہوئی داڑھیوں کو کیانام دینا چاہیں گے؟ پھر ہم اپنے حکمرانوں کو کیوں دوغلا کہیں؟ پہلے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیے!

دیکھیے کہ یہ عورتیں جو اس تحریک کا حصہ ہیں وہ صدقِ دل سے عافیہ کی رہائی چاہتی ہیں۔ صدیوں سے کہا جاتا ہے کہ دُکھ کی کڑی دھوپ کے بعد سکھ کا سایا ہے۔ مگر عافیہ کے کیس میں لگتا ہے کہ یہ جھوٹی امیدوں کا بوجھ ہے۔ سچ ہے کیونکہ سب سے پہلے عافیہ موومنٹ کے سب لوگوں کوخود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ کیا ہم آج بھی زمانۂ جاہلیت کے فرسودہ نظام کا حصہ ہیں جہاں عورت کو بکاؤمال سمجھا جاتا ہے۔ جواب ہے ہرگز نہیں!

ہرگز نہیں! یہ سب پڑھنے کے بعد شاید بہت سے مرد اور چند عورتیں یہ برملا کہیں گے کہ آپ خود اچھے ہوں تو کوئی آپ کو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مَیں اس بات سے ہرگز اتفاق نہیں کروں گی کیونکہ جو باتیں مَیں اپنے قارئین کے گوش گزار کررہی ہوں یہ میری بے انتہا قریبی عزیزہ کے ساتھ من و عن پیش آئیں۔ ناجانے کیوں مرد جنس کے ناقابلِ فہم عمل میں ڈوب جاتے اور یہ حقیقت بُھلا دیتے ہیں کہ ان کی ایسی رذیل حرکتیں ان کے کردار کو شکستہ حالی کی اندھی گلیوں میں سرٹکرانے کو چھوڑ دیتی ہیں۔

مَیں یہ کہنا چاہوں گی کہ فریب سے بھری اس دنیا میں جہاں ہر گام لوگ بہروپ ہی بہروپ بھرتے ہیں وہیں سچی، معصوم اور پاکباز عافیہ جیسی عورتیں بھی ہیں۔ خُدارا! دوغلے پن کے اس نیچ کھیل سے باہر نکل کر ستھری نیت سے عافیہ موومنٹ کے لیے کام کریں۔ وطنِ عزیزکی ہر عورت، بیٹی، بہن کو عزت دیجیے۔ اسے اپنی ذہنی ہوس کا نشانہ مت بنائیے پھر دیکھیے کہ رب العزت کس طرح سے مدد کرے گا۔ مجھے اپنے وطن اور اس کے لوگوں سے بے پناہ محبت ہے۔

بدقسمتی سے ہم آبادی کا وہ ڈھیر ہیں جو ابھی قوم نہیں بن سکی۔ کبھی تو مرد بیرونِ ممالک شہریت حاصل کرنے کے لیے غیر مذہب کی عورتوں سے بیاہ رچا لیتے ہیں۔ کبھی اسے دل بہلانے کا سامان سمجھتے ہیں۔ یاد رکھیے! خودی وہ طاقت ہے جو طوفان میں بھی پناہ گاہیں ڈھونڈ لیتی ہے۔ اس وطن کا ہر شخص ایک دوسرے سے جڑا ہے۔ بس ہمیں صرف اور صرف عزت کی روشنی سے ہر رشتے کے تقدس کو منور کرنا ہوگا۔ عورتوں کی عزت تو ایک نازک آبگینہ ہے ایک باعزت عورت کی طرف جب مردوں کی بُھوکی نگاہیں بڑھتی ہیں تو یاد رکھیں کہ یہ نگاہیں صدائے باز گشت کی طرح کسی نہ کسی طریقے سے گھوم پھر کران کے گھروں کی عورتوں تک ضرور پہنچیں گی۔ اگر واقعی عافیہ صدیقی کی رہائی ہی دامن گیر ہے، صرف وہی آپ کا مقصود ہے تو باقی عورتوں کو عزت دینا شروع کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).