پرنٹ میڈیا کی بقا


وقت کے ساتھ ساتھ انسان کا لائف اسٹائل بدلتا جاتا ہے، ہمارے بچپن میں والدین اور اساتذہ کی جانب سے ہم پر یہ پابندی عائد تھی کے اپنے روز کے خرچ میں سے کچھ پیسے بچا کر جمع کرنے ہیں، مہینے کے اختتام پر والدین اس جمع پونجی میں اپنا حصہ ملاتے تھے اور ہم جاکر اخبار فروش سے ہمدرد نونہال، تعلیم وتربیت یا ماہنامہ ساتھی خرید لاتے تھے۔ ہم پر ان رسائل کو پڑھنا لازم تھا، جب رسالے کو پڑھ لیتے تو والدین اور اساتذہ ان رسائل میں سے ہم سے سوالات پوچھا کرتے تھے۔

جس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ والدین اطمینان کرلیں کہ ہم نے واقعی رسالہ پڑھا بھی ہے یانہیں۔ ان رسائل کو پڑھناہماری تربیت کا حصہ سمجھا جاتا تھا اور بلا شبہ ان رسائل سے ہم نے بہت کچھ سیکھا لیکن اب دور بدل گیا ہے۔ اب ان رسائل کی فروخت نہ ہونے کے برابر ہے کیوں کہ اب بچے فراغ اوقات میں زیادہ تر وقت فری وڈیوز اور سوشل میڈیا کی ویب سائٹ لگا دیتے ہیں۔ وہاں سے وہ جو کچھ سیکھتا ہیں اس کا اندازہ سب کو ہوگا لیکن چونکہ اب وقت بدل چکا ہے اس لئے یہ سب کچھ بچوں کی زندگی کا اہم جز بن چکاہے۔

جب ہم مڈل پاس کر لیتے تو والدین کی جانب سے پابندی میں تبدیلی آجاتی، اب ہم پر بچوں کے رسائل پڑھنا لازم نہ تھا، اب ہم ہفتے میں ایک اردو کا اخبار پڑھنے کے پابند تھے۔ جب ہمیں اخبارات کا تعارف کرایا گیا تو اس وقت معلوم ہوا کہ ایک دور ایسا بھی تھا جب اخبارات مکمل طور پر ہاتھ سے لکھے جاتے تھے۔ پھر دور تبدیل ہوا اخبار کے کاتب بیروزگار ہوئے اور اخبار پرنٹنگ مشین کے ذریعے چھپنے لگا۔ آج کے دور میں اخبارات کمپیوٹر پر ڈیزائن ہو کر چھپتے ہیں۔

صحافت کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے یہ باتبھی علم میں آئی کہ جب کاتبوں کا روزگار چھن گیا تو انہوں نے کئی روز تک احتجاج کیا لیکن اس احتجاج کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ آج دنیا کا ہر اخبار کمپیوٹر کے ذریعے ٹائپ، ڈیزائن اور پھر پبلش کیا جاتا ہے لیکن آج کے اس جدید دور میں بھی بھارت کا ایک ”اردو“ اخبار ایساہے جو اس پرانی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ اس اخبار کا نام ”روزنامہ مسلمان“ ہے جو 1927 ءمیں بھارتی ریاست تامل ناڈو کے شہر چنائی سے شروع ہوا تھا۔ آج اس روزنامہ کی مسلسل اشاعت کو 88 سال گزر چکے ہیں مگر آج بھی اسے پہلے کاتب لکھتے ہیں اور پھر انہی پرانی مشینوں پر اس کی چھپائی کا کام ہوتا ہے۔ اس اخبا ر کی قیمت 75 پیسے ہے جو شاید دنیا کا سستا ترین اخبار ہے۔

وقت پھر بدلا اور ای پیپر کا دور آگیا، آج کے دور میں لوگ اخبارات کو کمپیوٹر پر ہی پڑھ لیتے ہیں لہذا اس دور میں اخباری کاپی کی اہمیت کم ہوگئی۔ ایسا ہونے سے بھی اخبار فروشوں اور پرنٹرز کا روزگار متاثر ہوا لیکن شاید اب تبدیلی آگئی ہے اور آج کے اس جدید دور میں جو تبدیلی رونما ہونے والی ہے اس کا کسی نے 71 سالوں میں سوچا بھی نہ ہوگا۔ اس دور میں میڈیا سے وابستہ افراد مشکل کا شکار ہیں۔ ایسے میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا ایک ایسا بیان سامنے آیا جس کا مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ اخبارات سے وابسہ افراد کوئی اور کام شروع کردیں اس شعبے سے وابستہ افراد کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہوجائے گی۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ہمیں ریاست اور حکومت پر اعتماد بحال کروانا ہے، مستقبل کے بدلتے رجحانات پر نظر رکھنی ہوگی۔ اس مقصد کے لیے ہم میڈیا یونیورسٹی بنانے جا رہے ہیں، مستقبل میں پرنٹ میڈیا کی بقا ممکن نظر نہیں آ رہی۔ انفارمیشن گروپ کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے۔ ، فواد چوہدری نے کہا کہ سوشل میڈیا تیزی سے ترقی کرتا جا رہا ہے، مستقبل میں سنسر شپ حکومت کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔

انتہائی محترم وزیر اطلاعات کے بیان کے بعد وہ صحافی جو یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ حکومت ان کے مسائل کو حل کرے گی امید ہار بیٹھے۔ وزیر اطلاعات کے مطابق تو پرنٹ میڈیا کی بقا ممکن نہیں لیکن کیا حکومت اس شعبے سے وابستہ افراد کے روزگار کے لئے کوئی اور انتظام کرے گی۔ اشتہارات نہ ملنے کے باعث جہاں ہزاروں صحافی بیروزگار ہوئے وہیں بہت سوں نے اس فیلڈ کو خیر باد کہہ دیا۔ چند ایک اب بھی اس شعبے سے چمٹے ہیں، ان میں اکثریت معاشرے کے وہ افراد ہیں جو انتہائی تعلیم یافتہ ہیں کیا اخبارات بند ہوجانے کے بعد حکومت ملک کے ان اثاثوں کے لئے وظیفہ جاری کرے گی؟

یا ان کا بھی وہی حال ہوگا جو ایمپریس مارکیٹ کے دوکانداروں کا ہوا۔ کیا اخبارات کے بند ہوجانے کے بعد حکومت ان افراد کے لئے سرکاری ملازمتوں کا انتظام کر ے گی؟ یا پھر سوشل میڈیا کے دور میں حکومت ان افراد کے لئے ویب ٹی چینلوں کو ریگولائز کر کے ان افراد کو ویب ٹی وی کے لائسنس جاری کرے گی۔ جس کی بدولت وہ اپنا پیٹ پال سکیں گے؟

دوسری جانب محترم وزیر اطلاعات میڈیا یونیورسٹیز بنانے کی بات کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو ملازمت مل گئی؟ یا مستقبل میں مل جائے گی؟ اگر حکومت کے پاس میڈیا اسٹیڈیز کے طلبہ کے لئے کوئی ملازمت نہیں تو پھر مزید یونیورسٹیوں کا قیام کیوں؟

بلا شبہ حکومت کو میڈیا کو ریگولائز کرنے کا پورا اختیار ہے اور حکومت کو ایسا کرنا بھی ہوگا لیکن حکومت کو میڈیا سے وابستہ افراد کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت کو ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن سے میڈیا سے وابستہ افراد با آسانی اپنی زندگی گزار سکیں اگر حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں بیروگاری نہ پھیلے تو اخبارات کو بند کرنے کی باتوں کے بجائے اخباری کاغذ کو سستا کرنا ہو گا اور ایسے اقدامات کرنا ہوں گے۔ جس سے چینل، اخبارات اور ویب ٹی وی کو چلانا آسان ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).