سرخ فام امریکی نسل پر تاریخ کے جبر کا نوحہ


تا ہم پورپ کے سفید فاموں کے نزدیک یہ ایک کھلی زمین تھی جس پر قبضہ جمایا جا سکتا تھا، اسے خریدا جا سکتا تھا اور اسے بیچا بھی جا سکتا تھا۔ سو پورپی لوگوں کے آنے کے بعد سرخ فام زندگی میں پہلی مرتبہ زمین کے بارے میں ایک بالکل نئے نقطہ نظر سے پریشان حال ہوئے جس کا ان کے یہاں تصور تک نہیں تھا یعنی زمین کا حق ملکیت۔ اس صورت حال کا نوحہ چیف سیاٹل کی ایک تقریر میں ہے۔ ضمنی طور پر ذکر کرتا چلوں کہ اس تقریر کو محترم دوست عاصم بخشی نے چند ماہ پہلے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ یہ پڑھنے کے لائق ہے اور ترجمہ بھی اسی لطافت کا آئینہ دار ہے۔

سفید فام شروع میں تو ساحلی علاقوں میں آباد ہوئے۔ ان میں بہت سے لوگوں کا ذریعہ معاش فر اور کھال کی تجارت تھا۔ دھیرے دھیرے ان کی بستیاں کالونیوں میں بدلنے لگیں جن کے آپس میں ملنے سے متحدہ امریکہ وجود میں آتا ہے۔ یہ ایک علیحدہ داستان ہے۔ 1787 میں میں امریکی کانگرس نے ایک قانون بنایا جس میں ضمانت دی گئی تھی کہ انڈین پراپرٹی اور زمین کو ہاتھ تک نہیں لگایا جا ئے گا۔ امریکہ کی تاریخ میں قانون کی پاس داری کے بے شمار مباحث ہیں مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ سرخ فام نسل سے متعلقہ اس قانون کا عملی حوالہ ہمیں نظر کیوں نہیں آتا؟

کہنے والے کہتے ہیں کہ بھینس اس کی، جس کی لاٹھی ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں ؛ 1907 میں علاقہ اوکلاہوما کے ریاست بننے کے بعد اس علاقے میں مقامی سرخ فاموں سے نہ صرف مزید زمین چھینی گئی بلکہ بہت سے دوسرے علاقوں کے باشندوں کو جبری ہجرت پر مجبور کر کے ریاست کے ایک چھوٹے سے رقبے میں ہانک دیا گیا۔ قصہ کوتاہ یہ ظلم و ستم کی ایک داستان ہے جو اس براعظم کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں امریکہ کے اصلی، پہلے اور مقامی باشندوں اور قبائل کو چھوٹے چھوٹے رقبوں تک محدود کر دیا گیا۔ شروع میں تو ان جگہوں میں باقاعدہ قید کر دیا جاتا تھا۔ آج کل بات ذرا سی مختلف ہے۔ ان جگہوں کو ریزرویشن کہا جا تا ہے۔ یہ نظام آج کے دن تک موجود ہے۔

ایک دفعہ مجھے ساوتھ ڈیکوٹا کی ریاست میں کام کرنے کا موقع ملا جس کی وجہ سے وہاں کے ”سوع Sioux“ قبیلے کے افراد سے ملنے کا اتفاق ہوا جہاں یہ ستم گزیدہ سرخ فام ایک ریزرویشن میں رہتے ہیں۔ اس کا نام ”پائن ریج ریزرویشن“ ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں نامی گرامی ماہر نفسیات ایرک ایرکسن نے بچوں کی نفسیات اور انسانی شناخت کے موضوع پر اپنی بہت سی تحقیقات کی تھیں۔ اس وقت ان کے سامنے جو مسائل رکھے گئے وہ سرخ فام بچوں سے متعلق تھے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ امریکی اور انگریزی تعلیم جس پہ حکومت بہت سی رقم خرچ کرتی تھی، اس کے باوجود سرخ فام بچے تعلیم مکمل کرنے کے بعد بڑے ہو کر امریکی معاشرے کا حصہ بننے کی بجائے اپنے ماحول اور اپنے کلچر کی جانب لوٹ جاتے ہیں اور واپس ریزرویشن پر اپنے ہی قبیلے سے جا ملتے ہیں؟

یہ سوال نہ صرف سرخ فام قبائل کے بچوں کے تناظر میں اہم ہے بلکہ بدلتی ہوئی دنیا کے مستقبل کے لئے بھی توجہ طلب ہے اور روز بروز نئی اہمیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ اس سوال کا کوئی آسان جواب تو موجود نہیں مگر اپنی تحقیق کے آغاز میں ہی ایرکسن نے ”ویل مین“ کی 1934 میں شائع ہونے والی کتاب سے ایک حوالہ دیا ہے : ”سفید فام باشندوں کی ڈیکوٹا کی چرگاہوں میں آمد سے پہلے زندگی اپنے دامن میں ہر خوشی سمیٹے ہوئے تھی۔ جنگلی بھینسوں کے ریوڑ چراگاہوں میں دوڑتے ہوئے انہیں سیاہ رنگ کی خوبصوتی عطا کرتے تھے۔ راکیز اور بلیک ہل کی پہاڑیوں اور وادیوں میں ہرنوں کے بسیرے تھے۔ ریچھ، سنجاب اور دوسرے شکار کی بہتات تھی اور قحط یا فاقہ کشی کا نشان تک نہیں تھا“۔

اس ساری بات کا نچوڑ یہ ہے کہ ایرکسن کو تحقیق کے دوران سوع قبیلے کے بڑے، بوڑھوں اور بچوں میں ایسا کوئی نفسیاتی تضاد یا ایسے نفسیاتی خلفشار معلوم نہ ہو سکے جنہیں جدید نفسیات کی اصطلاح میں ”نیوروسز“ کہا جاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود وہاں کے معاشرے میں بہت سی خرابی موجود تھی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس خالص انڈین بیماری کا کیا نام ہے اور اس کا علاج کیاہے؟

وہ کہتے ہیں کہ وہاں انفرادی نیوروسز تو نہیں تھا مگر ایک اور بیماری تھی جو کلچرل پتیھالوجی تھی۔ اس کا اظہار کئی طریقوں سے ہوتا تھا جس میں کثرت شراب نوشی اہم تھی، اس کے علاوہ بھی دیگر چھوٹے موٹے جرائم تھے وغیرہ وغیرہ۔ مگر اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ تھی کہ نظام زندگی کی بدلتی ہوئی رو کے ساتھ ان لوگوں کا اپنی زندگی کو تبدیل کرنے کے معاملے میں سفید فام امریکی کلچر کے ساتھ عدم تعاون کا ایک رویہ تھا جو بہت شدید تھا۔

مزاحمت کا یہ رویہ اس سوچ کا غماز تھا اور اس کرب کی علامت تھا کہ کسی طرح کلچر کو بچایا جائے، تا کہ وہ لوگ تبدیل ہو کر وہی شکل اختیار نہ کر لیں جو سفید فام فاتحین کا مطمعہ نظر تھا۔ وہ معیار زندگی جو سفید فام فاتح قوم نے ان کے ضمیر کے لئے انتخاب کیا تھا۔ اگر وہ ان کے معیار پر پورے اترنے لگیں تو یہ سرخ فام ضمیر پر ایک اور زخم کے مترادف ہو گا اور وہ تو پہلے ہی گھائل تھے۔

سرخ فام باشندوں کے لئے شکستگی کی یہ صورت آج تک ناقابل قبول ہے۔ باہر سے تو وہ بے شک شکست خوردہ ہیں مگر ان کی نفسیات کے اند ر بہت دور لاشعور میں ایک آواز ان سے یہ کہتی ہے کہ بے شک خود فنا ہو جاؤ مگر سفید کلچر کے سامنے گھٹنے مت ٹیکو۔ ایرکسن کے بقول، سرخ فام باشندوں کی زندگی کی اب ایک ہی بنیاد ہے اور وہ ہے سفید فام فاتح قوم کے ساتھ عدم تعاون۔ جس میں وہ اپنے بے جواز زمانہ حال میں رہنے کی بجائے، بہتر ہے کہ وہ کسی وقت کا انتظار کرتے ہوئے اپنی فتح کے خواب میں رہیں۔ یہ وہ وقت ہو گا جہاں ان کا مستقبل، انہیں ان کے ماضی میں واپس لے جائے گا۔ جہاں وقت کا حصار ٹوٹ کر انہیں تاریخ کی جکڑ بندیوں سے آزاد کر دے گا، جہاں فضا حیود و قیود سے ماورا ہو جاتی ہے اور جہاں جنگلی بھینس شکار کے لئے وافر موجود ہو گی۔

یہ قبیلے آج تک اس انتظار میں ہیں کہ سپریم کورٹ بلیک ہل کی پہاڑیاں اور وادیاں معاہدوں کے مطابق اس قبیلے کو واپس دلائے اور جنگلی بھینس جنہیں سفید فاموں نے نیست و نابود کر کے رکھ دیا ہے، ان کی بحالی کا حکم جاری کرے۔

امریکہ کی سپریم کورٹ کے پاس ہو سکتا ہے ان خوابوں کی تعبیر کے لئے ابھی تک چند قوانین موجود ہوں جنہیں وہ مستقبل بعید میں شاید کبھی استعمال کر بھی لے مگر تاریخ کا پہیہ کیسے واپس ہو گا۔ وہ تاریخ کہ جس میں ان تیرہ بختوں کی زندگی اپنے ابتدا سے اپنے مرموز انجام تک ایک ڈوری میں بندھی ہوئی تھی، جس میں کلچر نے ان کے لئے زندگی گزارنے کے تما م اصول طے کر رکھے تھے۔ جہاں نیکی اور بدی کے تمام نصائح ہوا، زمین، جنگلوں اور جانوروں کے استعاروں سے عبارت ہوا کرتے تھے۔

جس ماحول میں سرخ فام بزرگ اپنے بچوں کو یوں نصیحت کیا کرتے تھے۔ دیکھو ہر انسان کے اندر دو بھیڑیے ہیں جو ہر وقت مصروف جنگ رہتے ہیں۔ ایک کا نام ہے شر، حسد، نفرت اور بد اخلاقی ہے۔ دوسرے کا نام ہے نیکی، لحاظ، محبت اور سلوک۔ چھوٹا بچہ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد معصومیت سے پوچھتا ہے، تو اس لڑائی میں کون سا بھیڑیا فتح یاب ہوتا ہے؟ بوڑھے بزرگ نے نہایت متانت سے جواب دیا، وہ بھیڑیا جسے تم زیادہ خوراک کھلاؤ گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2