کیا خصوصی افراد کے لئے کوئی تبدیلی آئے گی؟


میرا جنم آج سے چھبیس سال قبل صوبہ بلوچستان کی ایک یخ بستہ وادی وادئی کوئٹہ میں ہوا تھا۔ شاید یہ موسم سرما کی برفباری کے اثرات تھے یا میرے رب کی رضا لیکن مجھے مسکیولر ڈسٹرافی نامی بیماری نے ہمیشہ کے لئے دبوچ لیا۔ ماں کے پیٹ سے ٹھیک ٹھاک پیدا ہونے والے بچے کو دیکھ کر اس کے اس مرض میں مبتلا ہونے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، پہلی بار احساس تب ہوا جب میرا کھلونا ہاتھ سے پھسل کر مجھ سے دور جا گرا اور اسے اپنی پہنچ سے دور پا کر میں نے اٹھانے کی کوشش تک نا کی، یہی وہ دن تھا جب میری ماں کی جدوجہد کا آغاز ہوگیا۔

ملک بھر کے تمام بڑے چھوٹے ہسپتالوں سے لے کر مزاروں، پیروں فقیروں اور درگاہوں تک ہر جگہ علاج کے لئے قسمت آزمائی لیکن رب کا فیصلہ سب پے بھاری اور اٹل تھا۔ اس مرض کا علاج ابھی تک دریافت ہی نہیں ہوا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کیا جاسکتا ہے کہ اس مرض کو بڑھنے سے روکا جائے، کیونکہ عمر گزرنے کے ساتھ متاثرہ شخص کا جسم اور صحت بہت بری طرح خراب ہونے لگتا ہے اور اس سچائی کو میں ان دنوں محسوس کررہا ہوں۔

بحر کیف میرے والدین نے رب کے فیصلے کو تو مان لیا مگر ہار نہیں مانی، میرے مستقبل کے لئے نارمل اولاد کی طرح محنت کرنا شروع کردی، مجھے شروعات سے ہی اسپیشل ایجوکیشن کے اداروں کے بجائے نارمل اسکول میں داخلہ دلوایا۔ یہ بھی ایک مشکل امر تھا مگر کرکے دکھایا۔ اسکول کالج اور پھر یونیورسٹی سے سیاسیات کی ڈگری حاصل کرنے تک کے مراحل میں میرے والدین سمیت بہت سے لوگوں کا ہاتھ ہے جن میں بہن بھائی، میرے کلاس فیلوز، رشتے دار اور اساتذہ شامل ہیں۔

لیکن اصل مشکلات کا دور تکمیل تعلیم کے بعد شروع ہوا جب مجھے ادراک ہوا کہ آخر میری زندگی مقصد کیا ہے؟ اس میں اپنے ہم عمر دوست احباب سے مقابلے یا حسد کا عنصر ہرگز شامل نہیں تھا لیکن گھر کا بڑا بیٹا ہونے کے ناطے مجھے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونے لگا۔ اپنی قابلیت اور ہنر کے مطابق میں نے محکمہ خصوصی تعلیم اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں کوٹہ کی بنیاد پر اور میرٹ پر ملازمت کے لئے کوشش کرنی شروع کی۔ لاتعداد این ٹی ایس ٹیسٹ پاس کیے اور ہربار مطلوبہ قابلیت ہونے اور امتحان پاس کرنے کے بعد بھی انٹرویو ٹیبل سے خالی ہاتھ لوٹا دیا گیا۔

میں نہیں جانتا ان کا مطلوبہ معیار آخر ہے کیا؟ چھ سال لگاتار کوششوں کے بعد بھی میں ناکام رہا۔ کہیں سے کوئی مدد نہیں آئی۔ نارمل افراد کی طرح صبح نو سے شام پانچ بجے تک کسی فیکٹری میں پرائیویٹ نوکری کرنا یا سڑکوں پر مزدوری کرنے کی اجازت میری صحت نہیں دیتی ورنہ میں وہ بھی کرلیتا۔ الغرض ملازمت کا کچھ بھی نہ ہوا۔ اس مشکل وقت میں اپنی ہمت بندھانے کا بیڑا بھی میں نے خود ہی اٹھایا۔ بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ اس مشکل وقت کو کسی مثبت کام میں لایا جائے، اپنی کمزوری کو ہی اپنی طاقت بنایا جائے۔

اپنی کسی خداداد صلاحیت کو وقت دے کر نکھارنے کا سوچا تو ذہن میں سب سے پہلا خیال شاعری کا آیا۔ میں نے اب تک کے اپنے تمام کلام کو یکجا کیا اور اسے ترتیب دیا۔ اس عرصے میں کچھ مزید اضافہ بھی کیا جس کے بعد میرا دیوان اب اشاعت کے آخری مراحل میں ہے۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اپنے معاشرے میں تعلیم کے فروغ کے لئے بلامعاوضہ کام کرنا شروع کیا۔ اپنے محلے کے کئی بچوں کو مستحق یا غیر مستحق کی تفریق کے بغیر بلامعاوضہ ٹیوشن دیتا ہوں۔

بحر حال وہ وقت بھی گزر گیا اور یہ وقت بھی گزر گیا۔ نوکری کے لئے اخبارات آج بھی کھنگالتا ہوں اور ہر آنے والے موقع پر دیوار میں سر اب بھی مارتا ہوں لیکن میرے لئے اور مجھ جیسے لاکھوں افراد کے لئے اس وقت تک کچھ بھی نہیں ہوگا جب تک حکومتی سرپرستی حاصل نہیں ہوگی۔ سیاسیات میں ماسٹر ڈگری رکھنے کی وجہ سے میں سیاست کو خوب سمجھتا ہوں۔ وفاق ہمیں صوبوں کی ذمہ داری اور صوبے اسے قومی مسئلہ قرار دے کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں لیکن انتخابات میں ہمارا ووٹ دونوں کو چاہیے ہوتا ہے۔ جب تک خصوصی افراد کا مسئلہ حکومتی عدم توجہ کا شکار رہے گا اور ریاست ان کی ذمہ داری نہیں اٹھائے گی تب تک کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).