رمضان، اخلاقیات اور ہم


سلیم اکرم


جیسے جیسے رمضان اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے ویسے ہی ہماری اخلاقی اقدار بھی 180 ڈگری کے زاویے پر رُخ موڑ رہی ہیں۔ اخلاق \"salimایک مستقل رویہ ہوتا ہے جو رہن سہن، فراست اور معاشرے کے آداب سکھلاتا ہے۔مختلف ثقافتوں میں اخلاقیات کا معیار مختلف ہوتا ہے جو ان کی روایات کی عکس بندی کرتا ہے۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں بھی ایسی روایات کے زیرِاثر اخلاقیات کے معیار نے جنم لیا ہے جو اپنے تی¿ں بہت دھندلایا ہوا اور غیر مستقل ہے۔ایسا اس لیے ہے کیونکہ ہمارا ضمیر مذہب اور دنیا کے ٹینِس کورٹ میں اچھلتا ہوا وہ گیند ہے جو یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اسے کِس جانب رہنا ہے بس جس جانب اچھال دیا جائے اُچھل جاتا ہے جو دراصل ایک مبہم ضمیر کی نشانی ہے۔

سال کے گیارہ ماہ ہم خاص حقیقت پسند اصولوں کے مطابق زندگی گزارتے ہیں، وہ معیارِ زندگی جو ہم نے اپنی حقیقی زندگیوں کے لیے وضع کر رکھا ہے۔ مگر یہ معیار اچانک سے ایک مخصوص مہینے میںتبدیل ہو جاتا ہے کیونکہ ہمارا نفس اس حقیقت کی ملامت کر رہا ہوتا ہے جِس کے تحت ہم اپنی زندگی کا بیشتر حِصہ صَرف کرتے ہیں۔ جھوٹ، چغل خوری، غیبت اور کرپشن جیسی بُرائیوں سے ہم اس مہینے میں نہ صِرف اجتناب کرتے ہیں بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ ان سماجی بُرائیوں سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ہی ہوتا ہے؟ یا ہم ایک ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ بس شیطان بہادر کے آزاد ہونے کی دیر ہے اور پِھر سے وُہی پرانی حالت؟ اب ان کا جواب ہم خوب جانتے ہیں کہ ملاوٹ جب اِس مہینے میں بھی بانگیں دیتی ہے تو بقیہ سال کا کیا کہنا!

خیر یہ تو تصویر کا وہ رُخ ہے جِس میں ہم عالمی طور پر تسلیم شُدہ بُرائیوں کا احاطہ کر سکتے ہیں اب دیکھتے ہیں وہ دوسرا رُخ جس میں دُنیا کے لیے پینٹ کو ٹخنے سے نیچے رکھنا تو ٹھیک ہے پر رمضان میں پائنچے اگر ٹخنوں کے اوپرنہ رہے تو روزہ زائل ہو جائے گا۔اس طریقے سے دین اور دنیا کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں ہمارے معاشرے کے اندر ایک ایسی سوچ پروان چڑھی ہے جو اِس طرح کے مبہم رویوں کا باعث ہے۔ میں نے اکثر مرد حضرات دیکھے ہیں جو سارا سال مختلِف خطوط پر اپنی داڑھیاں استوار کرواتے ہیں مگر رمضان میں خود کو صرف قدرتی داڑھی پر قید کر لیتے ہیں۔ ایسی خواتین ہیں جو سال بھر خوش لباس رہیں گی، مستقل میک اپ کریں گی مگر رمضان میں سادہ کپڑوں کے ساتھ میک اپ کی مقدار کم یا کبھی کبھار بالکل ہی ناپید کردیں گی۔ سارا سال کسی بھی وقت کانوں کو فون لگا کر موسیقی سے لطف اندوز ہونا تو ٹھیک ہے پر اس مہینے میں ’ھیڈ فون ‘ کا استعمال ممنوع کر لیا جاتا ہے۔ ایسے رویے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ابھی تک صحیح اور غلط میں فرق نہیں کر پائے جس کی وجہ سے ہمارے رویوں میں مستقل مزاجی موجود نہیں ہے۔ اس تحریر کا مقصد لیکچر جھاڑنا نہیں ہے کہ کسی کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں بلکہ ان دوغلے اور بوسیدہ معیاروں کی طرف توجہ دلانا ہے جس نے ایک مبہم، غیر یقینی معاشرتی رویوں کو جنم دیا ہے۔صحیح اور غلط کے درمیان کوئی تیسرا راستہ موجود نہیں ہے، اگر میک اپ کرنا غلط ہے توصرف رمضان میں ہی پابندی کیوں باقی مہینوں میں بھی اس برائی سے بچو۔ اگر شیو بنانایا فرنچ رکھنا گناہ ہے تو یہ پابندی صرف رمضان میں ہی کیوں؟ حالانکہ باقی مہینوں کی تےاری کے لیے رمضان تو مشق کا مہینہ ہے۔

اس طرح کی مبہم سوچ خود کو صرف ذاتی معاملے کی حد تک محدود نہیں کرتی بلکہ اجتماعی شکل اختیار کر کے ’احترام رمضان©‘ جیسے قوانین کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔وہ مہینہ جو ہمیں دوسروں کی بھوک کا احساس دلانے کے لیے آتا ہے، ہم اسی کے احترام کی آڑ میں ایسے قوانین بنا کر دوسروں کو زبردستی بھوکا رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ملک کا بیشتر مزدور طبقہ جو اس تپتی دھوپ میں محنت کر کے دہاڑی کماتا ہے اسے روٹی کے چند ٹکڑے کھانے کے لیے خفیہ جگہ تلاش کرنی پڑتی ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سوچیں اور اپنا قبلہ درست کریں کیونکہ انفرادی سوچ ہی ایک اجتماعی شکل اختیار کر کے ہماری قومی حکمتِ عملی میں ظاہر ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments