یونیورسٹیوں کا شہر بوسٹن


بوسٹن کامن شہر کے مرکز میں واقع ہے۔ یہ پچاس ایکڑ رقبے پر پھیلے پارک کا نام ہے۔ اس میں بہت سے درخت ہیں۔ گھاس کے قطعے ہیں۔ کئی مجسمے بھی نصب ہیں۔ فروگ پونڈ یعنی مینڈک کا تالاب ہے جو ان دنوں جما ہوا ہے اور بچے اس پر اسکیٹنگ کرتے ہیں۔ زیر زمین پارکنگ کا انتظام ہے۔ ہم نے اپنی گاڑی وہیں پارک کی۔ پھر پارکنگ فیس سن کر ہوش اڑ گئے۔ ایک گھنٹے کے بارہ ڈالر۔

بوسٹن کامن ہر اعتبار سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بوسٹن میں پہلے یورپی آبادکار ولیم بلیکسٹن کی ملکیت رہا۔ کسی زمانے میں قابض برطانوی افواج نے یہاں کیمپ قائم کیا تھا۔ اس میں باغیوں کو پھانسیاں دی جاتی رہیں۔ یہاں بڑے بڑے احتجاج ہوئے۔ اس کی تاریخ میں لکھا ہے کہ جنگ ویت نام کے خلاف مظاہرے میں بینظیر بھٹو بھی شریک ہوئیں۔

بوسٹن کامن کو نشتر پارک سمجھیں۔ آج بھی کسی نے جلسہ کرنا ہو تو یہاں کا رخ کرتا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ جونئیر، پوپ جان پال اور میخائل گورباچوف یہاں لاکھوں لوگوں سے خطاب کرچکے ہیں۔ یہ یادگار کنسرٹس کا میزبان بھی رہا ہے۔

بوسٹن کامن میں کار پارک کرنے کے بعد ہمیں پیٹ پوجا کی سوجھی۔ آئی فون سے پوچھا کہ آس پاس کوئی حلال فوڈ شاپ ہے؟ بیگم صاحبہ کٹر مذہبی ہیں اور انڈے اور آلو بھی ذبیحہ ہی کھاتی ہیں۔ گوگل میپ کی انگلی پکڑ کے ہم حلال گائیز نام کے ریسٹورنٹ پہنچے۔ یہ فوڈ چین پورے امریکا میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کے ریستورانوں کی تعداد سو سے زیادہ ہوچکی ہے۔ اس کا مالک پاکستانی ہے۔

کھانا سستا تھا۔ دس ڈالر میں بہت سے چاول، چکن اور کوئی آدھا نان۔ کھانا سرو کرنے والے عرب تھے لیکن پیسے پاکستانی ملازم نے لیے۔ میں نے اردو میں بات کی تو اس نے پوچھا، پائی جان! پینے واسطے کجھ نئیں چاہی دا؟

حلال ریسٹورنٹ کا یہ مطلب نہیں کہ صرف مسلمان کھانا کھانے آتے ہیں۔ گورے کالے عرب چینی سب قطار میں لگ کر کھانا خریدتے ہیں۔ کم قیمت ہے اس لیے طالب علم بھی آتے ہیں۔ بوسٹن میں اعلی تعلیم کے پچاس سے زیادہ ادارے ہیں۔ ان میں سے انچاس نان پرافٹ ہیں یعنی منافع نہیں کماتے۔ ہر سال ہزاروں طالب علم یہاں پڑھنے اور ریسرچ کرنے آتے ہیں۔ وہ ہوٹلوں میں نہیں رہ سکتے اور ہوسٹلوں میں اتنی جگہ نہیں ہوتی۔ چنانچہ بوسٹن کے رہائشی اپنے گھروں میں ایک دو کمرے ایسے رکھتے ہیں جہاں طالب علم کم کرایہ دے کر رہ سکیں۔

کھانا کھاکر ہم دوبارہ بوسٹن کامن پہنچے اور فریڈم ٹریل پر چل پڑے۔ یہ ڈھائی میل کا راستہ ہے جس پر بوسٹن کے سولہ تاریخی مقامات آتے ہیں۔ بوسٹن آئے اور یہ یہاں گشت نہ کیا تو کچھ نہ کیا۔

راستے میں اینٹوں سے بنی ٹیڑھی میٹھی گلیاں آئیں۔ اونچی اونچی عمارتیں بھی تھیں۔ گرجا گھر اور قبرستان بھی تھے۔ نیا اور پرانا اسمبلی ہال اور بازار بھی تھے۔ مجھے لاہور، مشہد اور دمشق کے پرانے بازار یاد آئے۔

چل چل کر تھک گئے تو ایک جگہ اسٹاربکس دیکھ کر رہا نہ گیا۔ اندر کافی لینے والوں کی قطار لگی تھی۔ ہم سے آگے ایک لڑکی کھڑی تھی۔ خوش شکل، خوش لباس، سر پر فیروزی ٹوپا، ناخنوں پر اسی رنگ کی پالش، ہاتھ میں پوڈل کی رسی۔ یہ بھیڑ جیسی کھال والا چھوٹا سا کتا ہوتا ہے۔ پوڈل میاں بہت فرینڈلی طبعیت کے تھے اور ہم سے محبت جتا رہے تھے۔ لیکن ان کی مالکن متوجہ نہیں ہورہی تھیں۔ وہ کافی لے چلیں تو میں نے پوچھا، یہ میل ہے یا فی میل؟ انھوں نے برطانوی لہجے میں جواب دیا، اٹز آ بوائے۔ میں نے کہا، ایک کافی کیوں لی؟ کیا یہ نہیں پیتا؟ فرمایا، نہیں۔ صرف اس کی ماما پیتی ہیں۔ یہاں لوگ اپنے کتوں سے اولاد جیسی محبت کرتے ہیں۔ کتے بھی کم محبتی نہیں ہوتے۔

فریڈم ٹریل کے راستے میں فینوئل ہال آتا ہے۔ یہ چھوٹی سی مارکیٹ ہے جسے غلاموں کے ایک تاجر فینوئل نے تعمیر کرکے شہر کو عطیہ کیا۔ یہاں غلاموں کی خریدو فروخت بھی ہوتی رہی۔ اس کے اندر اب بھی مختلف دکانیں ہیں لیکن چونکہ بوسٹن سے برطانوی راج سے آزادی کی تحریک نے جنم لیا اور فینوئل ہال میں سیموئل ایڈمز جیسے رہنما تقریریں کرتے تھے اس لیے یہ تاریخی مقام قرار پایا ہے۔ ہال کے سامنے سیموئل ایڈمز کا مجسمہ لگا ہوا ہے جس پر لکھا ہے، محب وطن، دور اندیش اور بے خوف رہنما، جنھوں نے انقلاب کو منظم کیا اور آزادی کی قرارداد پر دستخط کیے۔

امریکا میں سب سے زیادہ زور آزادی پر دیا جاتا ہے۔ نیویارک کے ساحل پر اسٹیچو آف لبرٹی یعنی مجسمہ آزادی امریکا کی پہچان ہے۔ امریکی کانگریس کے گنبد پر بھی ایک مجسمہ نصب ہے۔ اس کا نام اسٹیچو آف فریڈم ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے مقام پر جو سو منزلہ عمارت آج کھڑی ہے اس کا نام فریڈم ٹاور ہے۔ بوسٹن میں فریڈم ٹریل ہے۔ امریکی آئین میں بھی سب سے زیادہ زور آزادی پر دیا گیا ہے۔ یہی سب سے اہم شے ہے۔ فرد کی آزادی، اظہار کی آزادی، اپنی مرضی سے زندگی جینے کی آزادی۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi