میرا ایمان خراب نہ کر یار !


ن م راشد کہتے ہیں،
لفظ اور معانی کے رشتہ ہائے آ ہن سے
آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے
زندگی ہے وابستہ

بہت بحث ہو چکی کہ لفظوں کے وہی معانی کیوں قبول کیے جائیں جو مرور زمانہ سے، کہانیوں اور داستانوں سے، بڑوں کے برتنے سے یا کسی خیال کے پنپنے سے پیدا ہوئے۔ بھئی میز کو آخر چار ٹانگوں والی ایسی ٹھوس چیز ہی کیوں سمجھا جائے جو لکڑی ہے تو جل سکنے کی صلاحیت رکھے اور شیشہ ہے تو ٹوٹنے کی۔ چھوٹی ہو تو تپائی اور بڑی ہو تو ڈنر ٹیبل ہی کیوں کہا جائے۔ ہمارے محترم استاد احمد جاوید صاحب کہتے ہیں کہ انسان صرف اشیائ کو نام دیتا تھا اور اب وہ صلاحیت بھی نہ رہی۔ کبھی آپ نے سوچا کہ آ خر کیوں میز کا تصور کریں تو چار ٹانگوں والا، لپک لپک کر بوٹیاں چھیننے والا، بات بے بات بھونکنے والا کتا ذہن میں کیوں نہیں آ تا۔ اس لیے کہ ہم زبان بھی روایت کی طرح قبول کرتے ہیں کوئی سوال اٹھائے بغیر یا کوئی اضافہ کیے بغیر۔

آپ نے غور نہیں کیا ہوگا ورنہ غیر شعوری طور پر ہم نے ناموں کے ساتھ مختلف وابستگی قائم کی ہوتی ہے مثلاً میں جب سنتا ہوں کہ حفیظ جالندھری صاحب قومی ترانہ کے خالق ہیں تو مجھے ایک سوئی چبھتی ہے، جب کبھی ایسی بات پڑھتا ہوں کہ خالق نے اپنی کاری گری دکھانے کے لیے دنیا بنائی ہے تو معاً خیال آتا ہے چبھن والی جگہ پر ٹنکچر لگا کے روئی رکھوں اور آہستہ آہستہ سہلاتا رہوں۔ ظاہر ہے خالق کے معنی تو تخلیق کرنے والے کے ہیں لیکن رحیم یار خان جہاں میرا ننھیال آباد ہے ایک ڈاکٹر خالق ہوا کرتے تھے اور اس زمانہ میں ویکسینیشن کے انجکشن بہت ظالم تھے۔ اج بھی ستر کی دہائی میں پیدا ہونے والوں کے بازو پر اس کم بخت انجیکشن کے نشان موجود ہوتے ہیں۔

گرمی کی چھٹیوں میں جب نانا سے ملنے جاتے تو ڈاکٹر خالق کا نام سنتے ہی چیخیں نکل جاتیں۔ اج بھی خالق کا لفظ سنتا ہوں تو لگتا ہے کوئی کمپاؤنڈر لمبی سوئی والا انجکشن لیے، ”کچھ نہیں ہوتا کچھ نہیں ہوتا“ کہتا ہماری طرف بڑھ رہا ہے اور نانی نے ہمیں مضبوطی سے دبوچا ہوا ہے اور ہمارے چیختے چیختے، بل کھاتے کسماستے وہ سوئی جسم میں پیوست ہو جاتی ہے۔ ہم تکلیف میں ذلت کے احساس سے روتے رہتے ہیں۔

نظریہ کیسا اچھا لفظ ہے لیکن سنتے ہی دماغ میں غلاظت کا ڈھیر امڈ آتا ہے۔ نظریہ کا مطلب تو ظاہر ہے زندگی سے متعلق ایک خاص زاویہ نظر ہوتا ہے لیکن ہمارے سکول میں شکور محمد عاصی صاحب ( اللہ انہیں جنت اور غلمان نصیب کرے ) چھوٹے بچوں کے ساتھ بد فعلی کے لیے مشہور تھے۔ ہو سکتا ہے آج کل کچھ دانشور حضرات اس سرگرمی کو بد فعلی کہنے پر اعتراض کریں اور اپنا بھونڈا سا لبرل ازم گھسیڑیں لیکن بہر حال عاصی صاحب اردو اور مطالعہ پاکستان پڑھاتے تھے لہذا یہ امیج کسی طرح لفظ نظریہ کے ساتھ جڑ گیا۔

اسی طرح لفظ ایمان اپنے معانی کے بر خلاف ہمارے دوست باجوہ صاحب کا تنا ہوا چہرہ، ابلتی آنکھیں اور چوڑے چوڑے دانت سامنے لے آتا ہے۔ میں حسن کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا چاہے وہ کوئی تصویر ہو یا مجسمہ، تحریر ہو یا ”مصورہ“ اور عموماً میں ہی غافل دوستوں کو سڑک پر چلتے، کلاس میں آتے، بس سے اترتے، سیڑھیاں چڑھتے حسن کی طرف توجہ دلاتا۔ سب لوگ بڑے خضوع و خشوع سے متوجہ ہوتے سوائے باجوہ صاحب کے جو مجھے تقریباً پیٹنے والے ہوتے بل کہ ایک دو بار تو مجھے ان سے ٹھڈا پڑا بھی۔ ایسا نہیں تھا کہ باجوہ صاحب حسن پرست نہیں تھے لیکن انہیں اپنا ایمان خراب ہونے کا دھڑکا لگا رہتا تھا۔ وہ یہی کہتے رہتے کہ، ”اوئے میرا ایمان خراب نہ کرو، ایمان خراب نہ کرو“۔ بس کسی ناہنجار نے کہہ دیا، ”باجوہ صاحب! آپ نے ایمان پتلون میں رکھا ہوا ہے؟ “

کشکول شاید بھیک مانگنے تک محدود رہ گیا اور رہی سہی کسر خان صاحب کے اناڑی پن نے نکال دی ورنہ میری یادوں میں کشکول رحمدلی اور دانش کی علامت ہے۔ جب میں چھوٹا تھا تو ایک فقیر گلے میں کشکول ڈالے دروازے پر آتا۔ میری دادی اسے کبھی آٹا یا پیسے دے دیتی تھیں۔ دروازے پر آ کر وہ فقیر گانے کے آواز میں کہتا، ”آگے دتا ہویا ای کم آنا جے۔ تسیں کیڑا کولوں دینا۔ اودے دتے ہویے چوں دیو“ یعنی اگلے جہان میں ( مرنے کر بعد ) لوگوں کی مدد کرنا ہی کام آئے گا لہذا اللہ نے آپ پر جو عنایت کی ہے اس میں سے کچھ دیں۔

میں یہ آواز سنتے ہی چھت پر جاتا اور کبھی فقیر پر پانی پھینک دیتا تو کبھی پتھر۔ وہ بس یہی کہتا، ”کر لے موجاں کر لے فیر تو وڈیاں ہو جانا اے“۔ ایک دن میں اپنے دادا کی دوکان پر جا رہا تھا کہ گلی میں کچھ شرارتی بچوں نے ( شرارتی تو میں بھی تھا لیکن میری شرارت می ایک کمینگی ہوتی تھی جب کہ وہ روہدکیوں کے چھوکرے تھے۔ بے باک اور بد لحاظ ) مجھے روک لیا اور مارنے کو دوڑے۔ میں پلٹ کر بھاگا تو گلی سے باہر وہی فقیر دیکھا۔

ایک لمحہ کو میں نے سوچا کہ ان بچوں سے پٹ جاتا ہوں کیونکہ فقیر تو نہیں چھوڑے گا لیکن پھر ایک آواز آئی، ”اس پر گائے کا پساب کھنڈا دو“ یعنی اس پر گائے کا پیشاب گرا دو۔ اف! یہ سننا تھا کہ میں بھاگم بھاگ فقیر سے لپٹ گیا۔ اس فقیر نے آواز لگائی، ”حق اللہ حق“ اور بچے ڈر کر اپنی جگہ ٹھہر گئے۔ فقیر نے میرا ہاتھ تھاما اور اپنی رفتار کچھ کم کر کے میرے ساتھ چلنے لگا۔ ایک جگہ بھیڑ تھی اور اس نے مجھے گود میں اٹھا کر وہاں سے نکالا۔

وہ ایک مشہور آدمی تھا اور سارا بازار اسے جانتا تھا۔ مجھے یاد ہے راستے میں ہمیں جانو کپتی بھی ملی اور میں ایک بار پھر سہم گیا لیکن جانو کپتی اپنے آپ سے باتیں کرتی گزر گئی۔ تقسیم کے وقت جانو کپتی کے بچوں کو کسی حرامزادے نے مار دیا تھا اور وہ بے چارہ تب سے پاگلوں کی طرح اپنے بچوں کا پوچھتی پھرتی تھی۔ فقیر نے مجھے دادا کی دوکان پر اتارا اور آگے بڑھ گیا۔ ایک دو دن آرام کرنے کے بعد میں نے پھر فقیر کو مارنے کے کیے پتھر جمع کرنے شروع کر دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).