بر صغیر کی تباہی کا ایک اہم سبب: موروثی حکمرانی


1991 میں بے نظیر بھٹو اقتدار سے محروم تھیں۔ تب انہوں نے برصغیر کے حزب مخالف کے رہنماوں کی اسلام آباد میں ایک کانفرنس بلائی تھی جس میں ہندوستان کے وی پی سنگھ، بنگلہ دیش کی حسینہ واجد اور سری لنکا کی صدر چندریکا کمارتنگا کے حریف بھائی انورا بندارنایکے شریک ہوئے تھے۔ بے نظیر بھٹو نے اس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کہا تھا کہ جنوبی ایشیاء کے موروثی حکمرانوں نے عظیم خدمات انجام دی ہیں اور اس علاقہ کے لئے اس میں بہتری ہوگی اگر یہ خاندان دوبارہ بر سر اقتدار آجائیں۔

بلا شبہ بے نظیر بھٹو کے اس خطاب سے خود ستائی عیاں تھی اور اصل مقصد موروثی سیاست کی تباہیوں پر پردہ ڈالنا تھا، جو خود فریبی کے مترادف تھا۔

بر صغیر میں موروثی حکمرانی کی ابتداء سری لنکا سے ہوئی۔ گو بندار نایئکے کی بیوہ سری ماو پہلی موروثی وزیر اعظم مشہور ہیں لیکن ان سے پہلے عجیب و غریب خاندانی وراثت کا سلسلہ جاری تھا جو سری لنکا کی آزادی کے بعد دس سال تک حاوی رہا۔ کان کے ایک مالدارمالک اتیا گیلے کی تین بیٹیوں کی اولاد، ڈی ایس سینا نایکے، جان کوٹلے والا اور جے آر جے وردھنے یکے بعد دیگرے حکمران رہے۔ سری لنکا میں آزادی کے بعد 47 سال تک موروثی حکمرانی رہی جس کے دوران ملک نے 30 سال تک تامل ٹایگرس کی دھشت گردی اور خونریز خانہ جنگی کی تباہی دیکھی۔ 50 ہزار سے زیادہ افراد اس خانہ جنگی کی بھینٹ چڑھ گئے اور چار لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے۔ دو کروڑ کی آبادی والے اس جزیرہ کے لئے یہ خانہ جنگی قیامت سے کم نہیں تھی، جس کی ذمہ دار موروثی حکمرانوں کی کوتاہ نظر پالیسی تھی۔

ہندوستان میں نہرو نے اپنی بیٹی اندرا گاندھی کے لئے وزارت اعظمی کی راہ بڑے منظم طریقہ سے استوار کی تھی۔ سب سے پہلے انہوں نے اندرا گاندھی کو کانگریس کا صدر منتخب کرایا۔ اس کا مقصد سیاسی تجربہ کے ساتھ کانگریس پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا تھا، خاص طور پر ان رہنماوں کے ٹولہ سے تعلقات استوار کرنا تھا جو پارٹی میں پادشاہ گر سینڈیکیٹ کے نام سے مشہور تھا، اسی سینڈیکیٹ نے تاشقند میں لال بہادر شاستری کے انتقال کے بعد اندرا گاندھی کو وزارت اعظمی پر فایز کیا تھا۔

کانگریس میں موروثی سلسلہ دراصل اندرا گاندھی نے قایم کیا جو اب تک جاری ہے۔ اندرا گاندھی اپنے چہیتے بیٹے سنجے کو اپنا جانشین دیکھنا چاہتی تھیں لیکن اپنے چلبلے پن میں مشہور سنجے طیارہ کے کرتب کے دوران ہلاک ہو گئے۔ یہی سنجے تھے جنہوں نے آبادی میں اضافہ کی روک تھام کے لئے نس بندی کی مہم شروع کی جس کا تمام تر زور مسلم علاقوں میں تھا، پھر انہوں نے پرانی دلی سے مسلمانوں کو نکال کر غازی آباد اور دور بستیوں میں منتقل کر دیا۔ سنجے کی ہلاکت کے بعد اندرا گاندھی نے انڈین ایرلاینز میں اپنے ہواباز بیٹے راجیو کو اپنے جانشین کے طور پر تیار کرنا شروع کیا۔

ہندوستان کے عوام کو اندرا گاندھی پر ناز ہے کہ انہوں نے بنگلہ دیش کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا اور پاکستان کو دولخت کر دیا لیکن اس شادمانی کے نشہ میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اندرا گاندھی نے اپنی حکومت بچانے کے لئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے جمہوریت پر کاری وار کیا تھا، اور خالصتان کی تحریک کو کچلنے کے لئے امرتسر کے دربار صاحب میں پناہ گزیں جرنیل سنگھ بھنڈراں والا اور ان کے حامیوں کو نکالنے کے لئے حملہ کیا تھا، جس میں بھنڈراں والا کے ساتھ پانچ سو سکھ ہلاک ہوئے اور خالصتان کے ایک ہزار پانچ سو حامی لاپتہ ہوگئے۔ دربار صاحب کے حملہ پر سکھو ں میں ناراضی کی آگ اس قدر بھڑکی کہ اندرا گاندھی کے دو سکھ محافظوں نے انہیں گولی مار کر ہلاک کردیا۔ اس کے جواب میں دلی اور شمالی ہند میں سکھوں کا قتل عام ہوا جس میں دلی میں دو ہزار ایک سو سکھ مارے گئے اور دلی سے باہر آٹھ سو سکھوں کی جانیں گئیں۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد راجیو گاندھی وزارت اعظمی پر فایز ہوئے لیکن بوفورس اسلحہ کے اسکنڈل، بھوپال کے گیس سانحہ، سویت کے جی بی سے رقومات کی ترسیل اور کالا دھن جمع کرنے کے الزامات نے ان کا تعاقب شروع کر دیا۔ راجیو گاندھی نے سری لنکا میں تامل ٹایگرس کے خلاف ہندوستان کی فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا جس کی قیمت انہیں مدراس شہر کے قریب تامل ٹایگرس کے خود کش حملہ میں ہلاک ہونے کی صورت میں دینی پڑی۔ قتل کے بعد راجیو کی اطالوی بیگم سونیا نے کانگریس کی قیادت سنبھالی۔ ان کے ساتھ ان کے بیٹے راہول پارٹی کے صدر ہیں۔

نہرو، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی نے ملک پر بیالیس سال تک حکمرانی کی اور ورثہ میں کشمیر کا خونریزمسلہ، چین اور پاکستان کے خلاف دو جنگوں کی تباہی اوراندرا گاندھی کی ایمرجنسی کا دور نمایاں ہے۔ نہرو خاندان کی سیکولرزم کی علم برداری محض ملمع ثابت ہوئی اور جیسے ہی ان کے اقتدار کا دور ختم ہوا، ہندو قوم پرستی کا عفریت پورے ملک پر مسلط ہو گیا۔ نہرو خاندان کی قیادت پر یہ الزام عاید ہوتا ہے کہ اس نے ملک کے عوام کی ذہنیت بدلنے کے لئے کوئی کاوش نہیں کی، محض اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے میں ساری قوت صرف کر دی۔

بنگلہ دیش میں موروثی حکمرانی ابھی پہلی نسل سے آگے نہیں بڑھی۔ شیخ حسینہ واجد اپنے والد شیخ مجیب کے قتل کے بعد ان کی واحد وارث تھیں۔ ان کے مقابلہ میں صدر ضیا الرحمان کے قتل کے بعد سیاست میں ابھرنے والی خاتون بیگم خالدہ ضیا تھیں جو اپنی جماعت BNPمنظم کرنے کے بعد 1991 میں وزیر اعظم بنیں اور دوبارہ 2001 میں۔ حسینہ واجد 1996 میں پہلی بار برسر اقتدار آئیں اور 2006 کے بعد سے وزارت اعظمی پر فایز ہیں۔ اور پچھلے دنوں عام انتخابات سے پہلے ان کی حریف کو بدعنوانی کے الزام میں نااہل قرار دے دیا گیا تھا اور وہ پابند سلاسل تھیں۔ نتیجہ یہ کہ حسینہ واجد کی عوامی لیگ نے تین سو اراکین کی پارلیمنٹ میں دو سو اسی نشستوں پر قبضہ کر لیا۔ عام انتخابات میں وسیع پیمانہ پر دھاندلی کے الزام کی وجہ سے ملک کی سیاست پرعدم استحکام حاوی ہے۔ حسینہ واجد اپنی ہمشیرہ ریحانہ کو اپنی جانشین بنانا چاہتی ہیں جو آج کل امریکا میں رہتی ہیں۔

پاکستان میں موروثی سیاست کا آغاز پیپلز پارٹی سے ہوا۔ لیکن مختلف انداز سے۔ پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کی بیوہ بیگم نصرت بھٹو پارٹی کی سربراہ بنیں لیکن ان کا اقتدار صرف پارٹی تک محدود رہا جو ان کی علالت کے باعث بے نظیر بھٹو کو منتقل ہوا اس عمل میں قدرے کشیدگی کا عنصر بھی تھا۔ بہر حال جنرل ضیا الحق کے گیارہ سالہ دور میں دونوں بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر نے متعدد بار گھر میں نظر بندی کی صعوتیں برداشت کیں اور بے نظیر بھٹو کو جلاوطنی کی مصیبت سہنی پڑی۔ آخر کار 1988 میں طیارہ کے پر اسرار حادثہ میں جنرل ضیاء کی ہلاکت کے بعد جب فوج کے سربراہ اسلم بیگ نے عام انتخابات کرائے تو ان میں فتح کے نتیجہ میں بے نظیر بھٹو ایوان اقتدار میں داخل ہوئیں۔ لیکن دو سال بعد ہی صدر غلام اسحاق خان نے کرپشن اور اقرا پروری کے الزامات لگا کر انہیں وزارت اعظمی سے برطرف کردیا۔ کرپشن کے علاوہ بے نظیر بھٹو کے دور میں بے روزگاری اپنی انتہا پر تھی جس پر وہ قابو پانے میں ناکام رہیں۔ حکومت عملی طور پر دیوالیہ ہوگئی تھی اور منشیات کی غیر قانونی تجارت عروج پر تھی۔ وہ تمام خواب چکنا چور ہو گئے جن کی عوام کو پیپلز پارٹی کی حکومت سے امید تھی۔

1993کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد بے نظیر دوسری بار وزیر اعظم بنیں لیکن یہ معیاد ان کے لئے بڑی کٹھن رہی۔ ایک طرف ذوالفقار علی بھٹو کے سویس بنک میں اکاونٹ پر مرتضی بھٹو اور آصف علی زرداری کے درمیان شدید تنازعہ نے خاندان میں بحران پیدا کر دیا تھا، پھر کراچی میں مرتضی بھٹو قتل کر دئے گئے جس کا الزام بیگم نصر ت بھٹونے زرداری پر لگایا۔ اسی کے ساتھ ان کے شوہر کے خلاف سنگین کرپشن کے الزامات نے جن کی بناء پر ان کو ٹین پرسنٹ کہا جاتا تھا، بے نظیر بھٹو کی حکومت کو داغ دار کر دیا تھا۔ اوراسی کرپشن کے الزامات کے تحت صدر لغاری نے ان کی حکومت کو برطرف کردیا تھا۔ یہ بات بے نظیر بھٹو کے لئے شرمندگی کا باعث تھی کہ دونوں بار ان کی حکومتیں کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف ہوئیں۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پیپلز پارٹی کی موروثی قیادت کا انداز خالص جاگیردارانہ رہا ہے۔ باپ سے بیٹی اور بیوی سے شوہر اور شوہر سے بیٹے کی جانشینی۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ جمہوریت کی علم بردار جماعت پیپلز پارٹی کی قیادت کے معاملہ میں کہیں انتخاب کا کوئی مرحلہ راہ میں نہیں آیا۔ پارٹی کے موجودہ چیرمین بلاول زرداری بھٹو کو اگر وصیتی رہنما کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد آصف علی زرداری نے لاڑ کانہ میں جمع پیپلز پارٹی کے رہنماوں کو دور سے ایک کاغذ دکھایا جس پر ہری روشنائی سے تحریر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ بے نظیر بھٹو کی وصیت ہے۔ زرداری کے مطابق اس میں بلاول کو پارٹی کو چیرمین مقرر کیا گیا ہے اور جب تک وہ تعلیم ختم نہ کر لیں وہ شریک چیر مین رہیں گے۔ عصری تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ جب کسی سیاسی جماعت کا سربراہ وصیت کے ذریعہ مقرر کیا گیا ہو۔

نواز شریف نے بھی بھٹو کی دیکھا دیکھی اپنی خاندانی وراثت قایم کرنے کی کوشش کی لیکن بہت تاخیر سے کیونکہ نواز شریف جب 1981میں پنجاب کے وزیر خزانہ اور بعد میں وزیر اعلی کی حیثیت سے سیاست کے میدان میں داخل ہوئے تو اس وقت وہ عملی طور پر اپنے والد محمد شریف کے زیر تربیت تھے اور ان کی بڑی صاحب زادی مریم آٹھ سال کی تھیں اور نواز شریف کے دونوں بیٹے بہت چھوٹے تھے۔ جس طرح بلاول کا نام ان کے نانا بھٹو سے وابستہ کیا گیا ہے مریم صفدر نے بھی سیاسی مصلحت کی بنا پر اپنے آپ کو مریم نواز کہلانا شروع کیا ہے۔ مریم نواز  2013 کے انتخابات میں سیاسی میدان میں آئیں جب انہوں نے نواز شریف کی انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ اس وقت نواز شریف کے دونوں صاحب زادے لندن میں تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد بزنس میں مصروف تھے۔ نواز شریف کی یہ خواہش نمایاں نظر آتی ہے کہ مریم نواز ان کی جانشین کی حیثیت سے سیاسی میدان میں ابھریں۔ لیکن ان کا خاندان ایک بڑی سیاسی دلدل نظر آتا ہے۔ شہباز شریف کے بیٹے ان کے حریف نظر آتے ہیں۔

پاکستان میں چار دہائیوں سے سیاست اور اقتدار پر دو گھرانوں کے تسلط کی سب سے بڑی وجہ ہمارا جاگیردارانہ معاشرہ ہے جس کی جڑیں بڑی گہری ہیں، یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی،چار صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں پنجاب کے 379 گھرانے، سندھ کے  110 گھرانے، خیبر پختونخواہ کے 56 گھرانے اور بلوچستان کے 15 گھرانے نشستوں پر قابض رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں اقتدار پر دو گھرانوں کی موروثی حکمرانی نے ملک کو اور سنگین مسایل میں گھرے ہوئے عوام کو سوائے کرپشن کی دلدل کے کچھ نہیں دیا۔ نواز شریف کی نااہلی اور زرداری پر کرپشن کے سنگین الزامات نے، بے نظیر بھٹو کا 1991 کا دعوی باطل ثابت کر دیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں موروثی حکمرانون نے عظیم خدمات انجام دی ہیں۔

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani