چیف جسٹس پر تنقید کرنے والے ملک دشمن ہیں


چیف جیسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے جوہر ٹاؤن اور دوسری جائیدادوں پر قبضوں کے کیس میں دھواں دھار فیصلہ کرتے ہوئے اینٹی کرپشن کو کھوکھر برادران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔ ان کا جلال، رعب ودبدبہ اورآتشیں لب ولہجہ قابل دید و داد تھا۔ انہوں نے وزیراعظم ہاؤس کی طرح چالیس کنال پر محیط کھوکھر پیلس کو درسگاہ میں بدلنے کا حکم دے کر دس دن کے اندر یعنی سترہ جنوری سے پہلے رپورٹ ان کی خدمت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

افضل کھوکھر ن لیگ کے ایم این اے اور سیف اللہ کھوکھر ایم پی اے ہیں۔ اگر کھوکھر برادران نے بے سہارا اور مفلوک الحال لوگوں کی زمینوں پر ناجائز قبضہ جات کرکے شیش محل تعمیر کر رکھے ہیں تو ان پر مقدمات ضرور چلنے چاہییں اور انہیں ضرور کیفر کردار تک پہنچنا چاہیے۔ پانامہ سکینڈل کے بعد نیب، ایف آئی اے، عدالت عالیہ اور دوسرے تفتیشی و تحقیقی ادارے بڑی تندہی، مستعدی اور جلد بازی سے نواز شریف سمیت ”طاقتوروں“ کو سزائیں سنا کر اپنی دانست میں ملک سے کرپشن کے ناسور کو جڑوں سے اکھاڑنے میں مصروف ہیں۔

ہمارے چیف جسٹس تو عدل و انصاف کی معرکہ آرائی سمیت چومکھی لڑ رہے ہیں۔ ڈیم بنانے کے علاوہ وہ بھارت کو بھی پانی چوری پر تنبیہ کر چکے ہیں۔ ہسپتالوں، میڈیکل کالجوں اور تعلیمی اداروں کی بہتری کی بے مثال جدوجہد کے بعد ان کے پاس جو چند گھڑیاں بچتی ہیں ان میں وہ ملک کی ہوش ربا آبادی پر قابو پانے کے تیر بہ ہدف نسخے تجویز کرتے رہتے ہیں۔ شاعر مشرق نے شاید انہیں کے لیے کہا تھا کہ

جہاں میں اہلِ ایماں صورت خورشید جیتے ہیں

اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

یہ دیکھ کر ہمارے دل میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے کہ وہ دو سیاسی جماعتوں کے منتخب وزرا، اسمبلی ممبران اور اراکین پر قہر بن کر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ بھری عدالت میں انہیں رسوا کر کے نشان عبرت بناتے ہیں۔ پانامہ میں نواز، مریم، حسن، حسین اور کیپٹن صفدر کو تو سبق سکھا دیا۔ پیراگون سٹی اور ریلوے اراضی کیس میں ہر سماعت پر ”لوہے کے چنوں“ کو ذلیل کرتے ہیں۔ جعلی بینک اکاؤنٹس سے منی لانڈرنگ کیس میں اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید سمیت دوسرے کرداروں کو کھری کھری سنا کر سندھ سے لوٹ مار کے کلچر کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

نواز، شہباز دور کے بیوروکریٹس سے بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹ رہے ہیں۔ پرانے پاکستان کے اورنج ٹرین جیسے منصوبے بیک جنبش قلم بند کرکے نئے پاکستان کے ٹھیکداروں، معماروں اور راج مستریوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جب وہ عدالت میں شیر کی طرح دھاڑتے ہیں تو ظالم تھر تھر کانپتے ہیں۔ کس کی مجال کہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکے۔ ان کے سامنے سب سفاک اور خطرناک ”مجرموں“ کی نظریں جھکی رہتی ہیں۔

مگر کچھ سازشی اور دریدہ دہن عناصر مسلسل ان کی مثالی عادلانہ روش کے خلاف پروپگنڈہ کرکے ان کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ ان پر مقتدر حلقوں اور بادشاہ گر قوتوں کا آلہ کار ہونے کی پھبتی کستے ہیں۔ انہیں پاکستانی عدالتی تاریخ کا متنازع ترین اور متعصب ترین منصف اعٰلی کہتے ہیں۔ ایسے شر پسند اور فتنہ پرور عناصر کو ایسے فرشتہ صفت اور نیک طینت چیف صاحب پر یہ گھٹیا الزام دھرتے ہوئے ذرا خدا کا خوف نہیں آتا کہ ان کا رویہ طاقت کے اصل سرچشموں کے سامنے مفاہمانہ بلکہ معذرت خواہانہ اور عاجزانہ ہوتا ہے اور ن لیگ کا کوئی بندہ ان کے ہتھے چڑھ جائے تو وہ ببر شیر بن کر اس پر دھاڑتے ہیں۔

توہین عدالت کے جن معاملات میں وہ ن لیگ کے لوگوں کو پانچ پانچ سال تک نا اہل قرار دے چکے ہیں کچھ منظور نظر جماعتوں کے نمائندوں کو ایسے ہی کیسوں میں معافی دے چکے ہیں۔ مخالفین اور حاسدین کا کیا ہے وہ تو چیف صاحب کے عدالت میں اپنوں اور بیگانوں کے ساتھ طرز عمل کے حوالے سے شاعر مشرق کے اس مشہور شعر کو بھی نئی معنویت کے ساتھ پیش کرکے انہیں بدنام کرنے کی ناپاک جسارت کرتے ہیں

ہو ”حلقہء یاراں“ تو بریشم کی طرح نرم

”رزم حق و باطل“ ہو تو فولاد ہے مومن

یہ منہ پھٹ اور بے لگام فسادی اصغر خان، مشرف والے این آر او کیس، باجی علیمہ کیس، بنی گلہ محل کیس، چودھری برادران کیس، وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر و غیر ملکی فنڈز کیسوں کے حوالے سے چیف صاحب اور اصل حکمرانوں کے درمیان مک مکا اور کھلا این آر او قرار دے کر انصاف پرور اور عدل و مساوات کے پیکر پر سرعام کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ یہ بد بخت، غدار وطن اور ملک دشمن عناصر ہمارے عدل فاروقی کی یاد تازہ کرنے والے چیف صاحب پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ وہ انصاف کے نام پر ایک سیاسی پارٹی کے خلاف انتقامی کارروائیاں کر رہے ہیں۔

اسحاق ڈار سمیت بہت سے ن لیگیوں کی جائیدادیں ضبط اور اثاثے منجمد کر رہے ہیں مگر ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کے اثاثے فوراً بحال کردہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ملک صاحب نے ان اکاؤنٹوں سے کن کی بھاری تنخواہیں ادا کرنا ہوتی ہیں۔ یہ دشنام طراز گز گز بھر لمبی زبانیں نکال کر یہ زہربھی اگلتے ہیں کہ اگر ان کی دانست میں فالودے والے اور رکشے والے کے اکاؤنٹوں میں زرداری اور بلاول کے پیسے جاتے ہیں تو وزیراعظم کی بہنوں کے اکاؤنٹس میں وزیراعظم کے پیسے کیوں منتقل نہیں ہو سکتے؟

یہ لوگ ”صادق و امین“ وزیراعظم پر ایسے الزام لگاتے ہوئے شرم سے ڈوب کیوں نہیں مرتے؟ بھلا سادگی، سچائی، صداقت، امانت، دیانت اور شجاعت کے پیکر وزیراعظم پر ایسے گھناؤنے اور بے سروپا الزام ملک دشمنی نہیں تو اور کیا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ چیف جسٹس صاحب کا دور ہماری عدالتی تاریخ کے سنہری اور یادگار ترین عہد کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ہمیں یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ سترہ جنوری کے بعد ہمارا کیا بنے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).