شیخ السندھ شیخ ایاز


وہ سندھ کے شہر شکار پور میں پیدا ہوئے۔ شکار پور اور پھرکراچی جیسے بڑے شہر میں تعلیم حاصل کی۔ ان کی معاش کا ٹھکانہ بھی شہر میں تھا مگر وہ جانتے تھا کہ سندھ کی روح دیہات میں بستی ہے۔ اسنہوں نے اندرون سندھ گاؤں گاؤں یاترا کی اور سندھ کی مٹی کی خوشبو، اس کی لوک روایت اور اس کی شہروں کی آلودگی سے پاک مصفیٰ زبان، شعری مزاج اور قدیم اصناف یعنی بیت، کافی، دوہے اور وائی جو دیہاتیوں نے اپنی روز مرہ کے تانے بانے میں بن رکھی تھیں ان کو اپنی اندر اتار لیا۔ ایک جگہ انہوں نے یہ خود لکھاہے،

” اے سندھ تو میری ماں ہے۔ میں تیری دھرتی سے لفظ لیتا ہوں، جیسے تھل کی سُرخ گائے کے تھنوں سے بچھڑا دودھ پیتا ہے“
[ ذکرِ ایاز، محمد آصف خان، ”شیخ ایاز“ پنجابی سے ترجمہ، زاہد حسن، صفحہ 135 ]

بیت، دوہے، کافی اور وائی جو سندھ کے ادبی منظر نامے پر ایک صدی سے نظر نہیں آرہی تھیں، شیخ ایاز نے سندھ کی مٹی سے کشید کر کرکے اس لوک ورثہ کو بڑی انفرادیت سے جدید ادب کا حصہ بنادیا۔ قدیم روایت کو عصر حاضر کے موضوعات دیے، پرانی علامات کو نئے مطا لب اور متروک الفاظ کو تازگی سے استعمال کیا، اردو اور فارسی زبانوں سے استفادہ کیا اور ایک زبان ساز کا منصب حاصل کر لیا۔

شیخ ایاز کے فنی شعور میں بر صغیر کی قدیم تہذیب اور تاریخ کا فلسفیانہ تفکر، بالیدہ تعقل اور احساس جمال ہے۔ عالمی ادب کے مطالعہ نے ان کے فنی اور تہذیبی شعور کو مزید وسعت عطا کی۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ شیخ ایاز کے فکر و فن میں وسعت شعور کے ساتھ ساتھ وسعت قلبی کی کیفیت بھی ملتی ہے جس کا تعلق عشق کے الوہی رویہ سے ہے۔ اسنہوں نے اپنا فنی سفر عشق سے شروع کیا تھا اور عشق پر ہی ختم کیا۔ عشق کی فطرت میں پھیلاؤ ہے۔ سو ایاز کے ہاں بھی ذاتی عشق سے بات شروع ہوئی۔ پھر مجاز کا یہ تجربہ اپں ی اعلیٰ شکل میں اپنے ارد گرد کے معاشرے میں ہونے والی نفرتوں، بے انصافیوں اور ظلم کے خلاف فن کا ایسا موثر اظہار بن کر سامنے آیا جو پوری سندھی قوم کے تشخص پر پڑی سیاست اور جھوٹ کی گرد کو آندھی کی طرح اڑا کر لے گیا۔

مگر یہ بھی ایاز کے عشق کے سفر کا صرف ایک پڑاؤ تھا۔ انہیں آگے جانا تھا اس آفاقی منزل تک جو اہل دل کی آخری منزل ہے، روحانیت کا وہ مقام جہاں خدا کے ساتھ ساتھ مخلوق کی دوئی بھی مٹ جاتی ہے۔ اب کوئی غیر نہیں۔ سب اسی کل کا حصہ ہیں جس کا ایک ذرہ ناچیز یہ انسان ہے۔ تب انسان انسان کے لئے ہی نہیں سب مخلوق کے لئے رحمت بن جاتا ہے۔ تب زندگی میں وہ توازن پیدا ہوتا ہے جو اس پوری کائنات کے نظام کے پیچھے کار فرما ہے۔

شیخ ایاز بھی اسی منزل کے مسافر تھے۔ ان کی مادیت میں بھی روحانیت نے توازن پیدا کیا۔ اور یہ تو

ہو نا ہی تھا۔ سندھ کی ہزاروں سال کے علم و فن اور تہذیب کے رچاؤ والی مٹی جس کی ماں ہو اور شاہ لطیف بھٹائی جیسا صوفی جس کا مرشد ہو اس میں مادیت اور روحانیت کا توازن کیسے پیدا نہ ہو۔ اس منزلِ عرفان اور اس کی عطا کردہ برکت کا ان کو احساس تھا۔ انہوں نے شاید یہ نظم اپنے لئے ہی لکھی تھی:

آج کویتا کے پنگھٹ پر
سرسوتی اور کالی نے
ساتھ ساتھ رس کا گھونٹ بھرا ہے
یہ سنگم برسوں بعد ہوا ہے
کوئی مہا کوی جنما ہے۔

حقیقت اور روحانیت کے امتزاج سے ہی وہ شاعری پیدا ہو سکتی ہے جسے پیغمبری کا جزو کہا گیا ہے۔ ایاز نے اپنے مضمون ”کراچی کے دن رات“ میں اپنی شاعری پر خود اظہار خیال کر تے ہو ئے لکھا ہے :

” میرے پاس آیات نہیں اشعار ہیں جن کا ظہور اس کائنات کی طرح پر اسرار ہے لیکن پھر بھی یہ اس دھرتی سے منسلک ہیں۔ اس کے دکھ سکھ کی باز گشت ہیں۔ اپنی روحانیت کے با وجود مادی ہیں۔ اس دھرتی کی مٹی ہیں اور اسی کی طرح امر ہیں“ [ فکرِ ایاز، صفحہ 106 ]

ایاز کی ذات اور تخلیقی عمل میں ان کی قدیم معاشرت اور روحانیت کے اثرات نے ایک رمزیت، ایک سریت پِیدا کر دی ہے۔ وہ خود اپنے فن کی اس روح کی طرف اشارہ کر تے ہیں :
”بادلوں کی تہوں میں بھٹکتا ہوا، ایک حیرت ذدہ شوق وارفتہ ہوں“

وہ اپنی اس رمزیت کو محسوس کر تے ہیں اور اپنی ذات کو سمجھنے کی شعوری کوشش میں اپنے آپ سے مکالمہ میں مصروف ہیں اور اگر غور کیجئے تو کسی حد تک اس گتھی کو سلجھا چکے ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے :

” میں صرف اس دنیا اور اس کے جسم کا قائل ہوں پھر مجھے ٹیگور کے گیت اتنے کیوں پسند ہیں؟ مجھے میرا کے کیرتن اتنے کیوں پسند ہیں؟ آخر رادھا اور شیام کا پیار ایک کہاوت ہی تو ہے۔ میں نے مٹی پر ماتھا ٹیکا ہے مگر پھر بھی میرے من کو ٹیگور، میرا اور بھٹائی کیوں پسند ہیں؟ کہیں ایساتو نہیں کہ میں نے خود کو سمجھا ہی نہیں“۔ { سندر بن سے خط، فکرِ ایاز صفحہ 69 }

یہ اقتباسات ان کی تعصب سے پاک کشادہ دلی کا ثبوت ہیں۔ یہ کیفیت روحانیت کے مس کے بغیر پیدا نہیں ہو تی۔ یہی وہ خصوصیت ہے جو انسان کے اندر محبت کا ایسا چشمہ جاری کر دیتی ہے کہ وہ نہ صرف ساری انسانی برادری بلکہ ساری مخلوق کے لئے اپنے دل کے دروازے وا کر دیتا ہے۔ ”سندر بن سے خط“ کے ایک اقتباس پر اپنی تحریر ختم کرتی ہوں جو شیخ ایاز کے تصوف آشنا حساس دل کی دستاویز ہے :

”الاؤ پر سیخ گھوم رہی تھی اور چیتل کے گوشت میں سے چربی آگ پر گر کر سرسراہٹ کر رہی تھی۔ میں نے سوچا پتہ نہیں اس کی جوڑی والا دوسرا چیتل کہاں ہے۔ پتہ نہیں اسے اس کی عدم موجودگی کا احساس ہوگا بھی یا نہیں۔ جانوروں کے پیار میں تو نفاست اور قربت کا احساس انسانوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ وہ منہ سے منہ ملا کر ایک دوسرے پر گردن رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کو چاٹتے ہیں۔ جتنی چاہت اور لگن کبوتر کے کبوتری سے پیار میں ہے اتنی شاید ہی کسی مرد کی محبت میں ہو۔

میں نے ہوس صرف انسانوں میں دیکھی ہے۔ کیا یہ تن کی پکار ایک جانور کو دوسرے جانور کی عدم موجودگی کا احساس نہیں دلاتی ہوگی۔ انسان کس قدر ظالم اور جاہل ہے۔ اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے کس کس کی جان لے لیتا ہے۔ اچانک میرا دھیان عرب فلسفی ابولعلی معریٰ کی طرف گیا جو گوشت نہیں کھاتا تھا۔ بر بریت کی سیاہ تاریخ میں کبھی کبھی کوئی ستارہ چمکتا ہے جس کے وجود کے اسباب کوئی انسانی ذہن نہیں بتا سکتا۔ ”
{ فکرِ ایاز، صفحہ 75 }

شیخ ایاز نے زندگی کا جو راستہ چنا اور شعور کا جو سفر کیا وہ لمبا اور مشکل تھا۔ اس سفر میں کسی بھی اور انسان کی طرح ان کے قدم بھی کئی بار لڑ کھڑائے، انہوں نے بھی کئی غلط فیصلے ِکئے۔ انہوں نے بھی کئی معقول لوگوں کو شکایت کا مو قع دیا کیونکہ انسان ہو نے کے ناطے اچھائی اور برا ئی دونوں کے امکان ہر فرد کی طرح ان میں بھی موجود تھے۔ اور یوں بھی کسی انسان کی کی شخصیت کے بارے میں اس کی زندگی میں آخری فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہو سکتا ہے اگلے ایک پل میں اس کی قلب ماہیت ہو جائے۔ سو اب جب شیخ ایاز اس دنیا سے جا چکے ہیں تو ان کے سفر کا مکمل نقشہ ہمارے سامنے ہے جو اس بات کا بثوت ہے کہ لڑکھڑانے کے باوجود وہ اپنے سفر میں کامیاب رہے۔ وہ اس دنیا کو بہتر شعور عطا کر گئے۔ ان کے فن کا حسین تحفہ اور اس سے پھوٹنے والی آفاقی محبت کا شعور پورے انسانی خاندان کو مبارک ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2