تین چھوٹے افسانے ایک ساتھ


پہلا افسانہ:

” نجات“

وہ دل کا صاف تھا۔ چھوٹی سی بات پر مسکرا لیتا تو وہیں درد جہاں سر پر اٹھائے تنہائی میں رو بھی لیتا۔ اس کے ہاتھ میں سگریٹ اس لیے تھا۔ کیونکہ اس کی انگلیوں میں انگلیاں اور ہاتھ میں ہاتھ ڈالنے والا نہیں تھا۔ اس کے سر درد کی وجہ آس پاس کا شور و غل تھا۔ اس کا مذہب تھا یا وہ بے مذہب تھا، یہ معلوم نہ ہوسکا البتہ وہ قدرتی نظاروں کا شیدائی اور اپنی ماں سمان دھرتی کا پجاری تھا۔ وہ ذہنی عیاشی کی بہ جائے قومی سوال کی تبلیغ کرتا۔

اسے خواجہ سراوں، نشیؤں، ریڑھی بانوں اور مزدور بچوں کے ساتھ باتیں کرنا اچھا لگتا تھا۔ وہ صرف اور صرف عمل اور سرگرمی پر یقین محکم رکھنے والا انسان تھا۔ اس نے ایک مذہبی کتاب کے الفاظ ”کونو مع الصادقین، سچے لوگوں کا ساتھ دو“ کے مصداق اپنی زندگی مظلوموں اور قوم کے حق میں جدوجہد کرتے گزاری۔ پچھلے دنوں بے روزگاری، نفسیاتی مسائل، خاندانی مسائل، ہر لمحے اپنی جان کو درپیش خطرے اور شدید تنہائی سے تنگ آکر اس نے خودکشی کرلی۔ مرحوم کی نماز جنازہ پڑھانے سے مولوی صاحب نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ”ہمارے مذہب میں خودکشی حرام ہے۔ خودکشی انسان کا ذاتی فعل ہے۔ خودکشی یعنی بے وقت موت قسمت میں نہیں ہوتی۔ مرحوم نے خدا کی لکھی تقدیر کے خلاف جاکر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا“۔

اسے بغیر نماز جنازہ پڑھائے
بے روزگاری، نفسیاتی مسائل، خاندانی پریشانیوں، ڈر اور تنہائی کے ساتھ دفنا دیا گیا۔
خودکشی سے پہلے اس نے ایک آخری رقعہ بھی چھوڑا تھا۔ جس پر ایک لفظ
” نجات“ لکھا ہوا تھا۔

دوسرا افسانہ:

” وہ جن کے سوا سب کافر ہیں“

عجوہ کھجور میں ہزار بیماریوں کا علاج ہے۔ درد دندان سے کر دل کے درد کی دوا ہے۔ شہد کا مستقل استعمال کرنے والے سے بیماری دور بھاگتی ہے۔ نئے دور کے سارے نسخے عجوہ کھجور اور خالص شہد سے بنے ہیں۔ مولانا صاحب نے ایک بزرگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا۔ عرصہ بعد مولانا صاحب خود بوجوہ بیماری صاحب فراش ہوئے تو بیٹے نے اسے ہسپتال میں داخل کیا۔ طبیبوں کے علاج اور تجویز کردہ دوا دارو اور نرسز کی دیکھ بال نے مولانا صاحب کو موت کے منہ سے نکالا۔ ہوش میں آنے کے بعد مولانا صاحب نے خود کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس علاج گاہ میں پایا۔ اس نے خدا کا شکر بجا لایا۔ اپنے ساتھ بیٹھے باریش بیٹے کو اپنے والد یعنی اپنی خدمت کرنے اور فرمانبرداری پر شاباش دی۔ بیٹے نے اپنے والد کو پانی پلایا اور پاس پڑا رجسٹر اٹھا کر والد کو دکھاتے ہوئے کہا

” عجوہ کجھور اور شہد کی سیل بڑھ گئی ہے۔ پچھلے سال کی نسبت اس سال زیادہ منافع کی توقع ہے“

تیسرا افسانہ:

” بھوکے کے خواب میں دنبے“

اس نے دسترخوان کی طرف نظر پھیری، تو دیکھا کہ دنبے کی سجی، چند روٹیاں، سلاد، مشروب اور میوہ جات رکھے ہوئے ہیں۔ وہ کھانے کے لئے بیٹھا اور یوں بیٹھا جیسے دسترخوان سے دوبارہ اٹھنے کا ارادہ ہی نہ ہو۔ اس نے پہلا نوالہ منہ کی زینت بنایا ہی تھا کہ ایک آواز آئی
” صبح کے چار بج گئے ہیں۔ مزدوری کے لئے جانا ہے یا نہیں؟ ورنہ آج کی طرح بھوکا سونا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).