اماراتی شہزادہ بھی کپتان کی خوبیوں پر فدا ہے


سوشل میڈیا پر کپتان کے مخالفین نے شور مچا دیا کہ ابو ظہبی کے ولی عہد جناب ایم بی زیڈ یعنی محمد بین زید النہیان کو پاکستان میں کپتان سے مل کر اتنی مایوسی ہوئی ہے کہ وہ دو گھنٹے بعد ہی واپس چلے گئے۔

فواد چودھری نے یہ گمراہی دیکھ کر ٹویٹ کر دی ”ایسا ایسا بزرجمہر بیٹھا ہے جس نے زندگی میں فارن آفس نہیں دیکھا وہ بھی خارجہ پالیسی کا ماہررپورٹر ہے، کہ ابوظہبی سے دو گھنٹے کے لئے ولی عہد آئے اور چلے بھی گئے او بھائی ولی عہد تین دن سے پاکستان ہیں آج واپسی اسلام آباد سے ہوئی، تمام تفاصیل پہلے سے طے ہوتی ہیں آج کا دورہ تسلسل میں ہے“۔

اس پر کم فہم لوگ چڑھ دوڑے کہ کپتان کے خصوصی مشیر افتخار درانی تو کہہ رہے ہیں کہ ”ابو ظہبی کے ولی عہد محمد بن زید النیہان کا سرکاری دورہ ایک روزہ تھا جو کہ طے شدہ شیڈول کے تحت مکمل ہوا ہے۔ “

اب لوگ طرح طرح کی نکتہ طرازی کر رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تین دن پہلے کپتان ترکی گیا اور اسی دن شہزادہ حضور پاکستان آئے، کوئی کہتا ہے کہ العربیہ نے بتایا کہ شہزادہ حضور 6 جنوری بروز اتوار جائیں گے۔ کوئی کہتا ہے کہ حکومت پاکستان نے ٹویٹر پر بتایا ہے کہ ایک روزہ سرکاری دورہ تھا۔ غرض کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔

حالانکہ کوئی بھی ذی شعور شخص غور کرے تو نہ فواد چودھری غلط کہہ رہے ہیں، نہ افتخار درانی اور نہ العربیہ۔ معاملہ یہ ہے کہ شہزادہ حضور سیر شکار کے نہایت شوقین ہیں۔ ان کے سرکاری پروفائل پر بھی لکھا ہے کہ وہ سدھائے ہوئے شاہینوں سے شکار کھیلنے والی عظیم شخصیت ہیں۔ اماراتی شہزادوں کو خاص طور پر چولستان پسند ہے۔

ہمارا گمان ہے کہ شہزادہ حضور کپتان سے ملاقات کے لئے ایسے بے قرار ہوئے ہوں گے کہ طے شدہ وقت سے تین دن پہلے ہی پاکستان تشریف لے آئے۔ کہاں وہ وقت کہ کرپٹ پاکستانی حکمرانوں کے دور میں اماراتی حکمران انہیں ملنے کا وقت ہی نہیں دیتے تھے، اور کہاں یہ وقت کہ وہ خود چل کر آئے اور وقت سے کہیں پہلے آ گئے۔ وقت گزاری کے لئے وہ چولستان آ کر تلور کا شکار کھیلتے رہے ہوں گے۔ کپتان جیسے دلیر اور دو ٹوک بات کرنے والے وزیراعظم سے، جو کرپٹ بھی نہیں ہے اور ہینڈسم بھی ہے، بات کرنے کے لئے اگر کسی کو تلور و دیگر مقویات کی ضرورت پڑ جائے تو کم از کم ہمیں حیرت نہیں ہوتی۔

ہمارا اندازہ ہے کہ ڈیڑھ ماہ قبل امارات میں کپتان سے ملنے کے بعد اماراتی شاہی خانوادہ ان سے شدید مرعوب ہو گیا۔ انہیں دکھائی دے گیا کہ یہی وہ بہادر اور غیر کرپٹ شخص ہے جو ٹرمپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہے اور اسرائیلی جس سے ڈرتے ہیں۔ یہی وہ لیڈر ہے جو پاکستان کو ایک سپر پاور بنا کر اسلامی ممالک کو نیٹو نما اتحاد بنا کر اپنی حفاظت میں ویسے لے لے گا جیسے امریکہ نے یورپ کو لیا ہوا ہے۔ اقتصادی محاذ پر بھی ان کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ کپتان کی قیادت میں پاکستان دنیا کی دوسری بڑی معیشت بننے جا رہا ہے۔ بن تو پہلی بھی سکتا ہے مگر چین سے لازوال دوستی کے سبب اس کا لحاظ کر لے گا اور اسے نمبر ون رہنے دے گا۔

یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی کپتان کا جہاز ترکی کے لئے اڑا تاکہ ایک خود دار انداز میں خلیفہ ایردوان سے قرضہ لینے کی بات کی جائے، ویسے ہی اماراتی شہزادے کا جہاز چولستان کے صحرا میں اتر گیا۔ اب اتنا اہم مہمان بارہ برس بعد پاکستان آ رہا تھا، ظاہر ہے کپتان نے بھرپور پروٹوکول کا بندوبست کیا ہو گا۔ تمام اہم وزرا تو کپتان کے ساتھ ترکی گئے ہوئے تھے، صرف مراد سعید ہی ایسے تھے جو تلور کے شکار کے دنوں میں شہزادہ حضور کے کام آ سکتے تھے۔ وہ جوان بھی ہیں، چست و چالاک بھی اور باتیں ایسی کرتے ہیں کہ پر کا کوا اور رائی کا پہاڑ بنا کر مقابل کا دل لبھا لیں۔ انہی کو یہ اہم ذمہ داری سونپی گئی ہو گی۔

بہرحال تین دن تلور کا شکار کھیلنے کے بعد جب اماراتی جہاز چولستان سے اڑا ہو گا، تو ساتھ ہی اس کے شیشے پر لگی روٹ کی تختی بدل دی گئی ہو گی اور اسے سرکاری شاہی سفارتی پرواز کا درجہ دے کر اسلام آباد ائیرپورٹ پر اتارا گیا ہو گا۔ یوں شہزادہ حضور کے سرکاری دورے کا آغاز ان کی پاکستان آمد کے تین دن بعد ہوا ہو گا۔

اسلام آباد پہنچ کر جب جہاز کا دروازہ کھلا تو شہزادہ حضور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ امت مسلمہ کا عظیم ترین لیڈر یعنی کپتان خود سیڑھیوں کے نیچے بانہیں پھیلائے کھڑا ہے۔ شہزادے نے بے اختیار اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر اپنا فون نکالا اور اس تاریخی لمحے کو اپنی سیلفی میں قید کر لیا۔

اس کے بعد جب کپتان نے تمام پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شہزادے کو اگلی سیٹ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود ڈرائیونگ سنبھال لی تو شہزادہ حضور مزید متاثر ہوئے۔ کہاں تو یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا کہ کپتان ملک نہیں چلا سکتا اور کہاں یہ منظر دیکھنے میں آیا کہ وہ ملک کیا ایک گاڑی چلانے پر بھی قادر ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کپتان نے ایسا کیوں کیا؟ ہوا یہ ہو گا کہ تمام گماشتوں سے پیچھا چھڑا کر کپتان شہزادہ حضور کے ساتھ اس لمبی سی گاڑی میں چکلالہ سے وزیراعظم ہاؤس تک کی لانگ ڈرائیو پر نکلا، تو شہزادے نے ایک ٹیپیکل نوجوان کی طرح بے اختیار پوچھ لیا کہ کہ گاڑی کتنی مائلیج دے رہی ہے۔ بس یہیں سے کپتان نے اہم ترین سفارتی پتہ پھینکا اور بتایا کہ چھے ہزار سی سی کی یہ گاڑی بے تحاشا پیٹرول پھونکتی ہے۔ اگر ادھار پیٹرول نہ ملا تو عین ممکن ہے کہ واپسی کے لئے اوبر کروانی پڑ جائے۔

یہ سن کر شہزادہ حضور کچھ پریشان ہوئے ہوں گے۔ مگر پھر ان دونوں عظیم حکمرانوں کے بیچ پاکستان کو درپیش سنگین چیلنجز کے بارے میں نتیجہ خیز گفتگو ہوئی جس کے اختتام پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ کپتان مارچ 2019 میں ابو ظہبی میں ہونے والے سپیشل اولمپکس کے انعقاد کے لئے شہزادہ حضور کی بھرپور سپورٹ کرے گا۔ سپیشل اولمپکس کا مقابلہ ان افراد کے لئے کیا جاتا ہے جو کسی ذہنی معذوری کا شکار ہوں۔ امید ہے کہ کپتان اپنی کمٹ منٹ کے مطابق سپیشل اولمپکس میں اعلی ترین سطح پر شرکت یقینی بنائے گا اور اپنی کابینہ کے اہم وزیروں کو وہاں بھیجے گا تاکہ شہزادہ حضور سے تعلقات برادرانہ ہو جائیں اور امارات میں کپتان کی حکومت کے متعلق نرم گوشہ پیدا ہو۔

اس کے بعد ایوان وزیراعظم میں دونوں نے کھانا وغیرہ کھایا اور اہم وزرا و دیگر افراد سے شہزادے کی ملاقات کروائی گئی۔ جناب مراد سعید کی شہزادے سے بھی ملاقات کروائی گئی اور ہمارا گمان ہے کہ کپتان نے شہزادہ حضور سے پوچھ بھی لیا کہ صحرائے چولستان میں مراد سعید کی میزبانی میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟ شہزادہ حضور کے چہرہ مبارک پر پھوٹنے والی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ اب وہ بارہ برس بعد نہیں بلکہ ہر برس بارہ مرتبہ پاکستان تشریف لائیں گے۔ تلور کا شکار کرنے میں اماراتی شہزادوں کی جان ہے۔ (ختم شد)۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar