سینما کا سود مند میڈیم اور ملا کے فتوے


کیا ادب و فن کے نام پر ایک فلم ہی باقی ہے، کہ ہم سینما سے رُجوع کریں؟ اور کیوں؟ کیا ہمارے مذہب میں سینما اور فلم سازی مباح ہے؟ یہ اور اس طرح کے بے شمار سوالات ہیں، جن سے گاہے گاہے ہمارا سامنا ہوتا ہے۔ بے شک ادب و فنون میں محض فلمیں نہیں آتیں، لیکن فلم، فنون کا ایک جزو تو ہے؛ اس سے انکار نا ممکن ہے، مگر اسی جزو سے بے نیازی نے، جیسا کہ مذہب پسندی کے تناظر میں، سوال کیا جاتا ہے، اس کا کیا احوال ہے؟ ممکن ہے آپ اس طرح کی باتوں کی ترجمانی کرنے والوں سے واقف نہ ہوں، لیکن ہمیں واسطہ پڑا ہے۔ ہم نے کہیں لکھا تھا، جس چیز کو ہم ابلیسی نظام کے قیام کا آلہ تصور کرتے ہیں وہ بذات خود ابلیسی نظام کا حامل نہیں ہے، بلکہ ہم نے اس کو ایسا مان لیا ہے؛ اسی مان لینے نے ہمیں یعنی مسلمانوں کونقصان پہنچایا ہے۔ در اصل نام نہاد عبادت گاہوں سے وابستہ اسکالر یا مذہبی ٹھیکداروں نے آرٹ کو کوئی جگہ دی ہی نہیں؛ خاص کر مبینہ اسلام کے نام لیواوں نے۔ ان کے نزدیک یہ چیزیں عین خلاف مذہب ہیں۔ حالاں کہ یہ فن فنون لطیفہ کی سب سے زیادہ دور رس اثرات کی حامل صنف میں سے ایک ہے۔
شاعری، موسیقی، مصوری اور آرٹ کی دیگر اصناف کی پذیرائی، ایک خاص طبقے تک محدود ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ وِڈیو گرافی کا دائرہ اس قدر وسیع ہے، کہ اس کی اسکرین پر ابھرتے مناظر اور مکالمے ان پڑھ مزدور، کسان اور دنیا کے ہر معاملے سے بے خبر گھریلو خواتین تک کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ ہماری یہ بد قسمتی رہی کہ اس قدر وسعت اور اہمیت رکھنے والا یہ میڈیم، ہمارے یہاں شدید زبوں حالی کی زد پر رہا۔
برصغیر میں فلمی صنعت کی داغ بیل جن لوگوں نے ڈالی، اور اس شعبے میں پیش پیش رہے، ان میں نمایاں نام مسلمانوں کے ہیں۔ اداکاری ہو، موسیقی ہو یا ہدایت کاری، شاعری اور کہانی سمیت ہندوستان میں ابھرنے والی فلم نگری کے ہر شعبے میں مسلمانوں نے اپنی صلاحیت منوائی۔ افسوس ہمارے مبینہ مذہبی طبقے نے انھیں ارذل تصور کیا اور اس فن کو شراب اور سور کی طرح نجس جانا۔ اس کا جو نتیجہ نکلا، اس سے ہم واقف ہی ہیں۔ ایسے میں اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا، کہ ہم آج شدت پسندی کی جس فضا میں جی رہے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے، کہ ہمارے مذہبی حلقے فنون لطیفہ کے پنپنے میں رکاوٹ  بنے رہے۔ فنون اذہان کی تطہیر کرتے ہیں، شعور اجاگر کرتے ہیں۔ فن افراد کے بیچ میں میں برداشت پیدا کرتا ہے، لیکن ہمارے مذہبی ٹھیکیداروں اور کچھ دیگر طبقات نے آرٹ کے ہر شعبے کو کچل ڈالنے کی کوشش کی۔ خاص طور پر، جو کہ عوام کے قریب ترین فن لطیفہ ہے، کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا۔ ان کے خلاف فتوے جاری کیے گئے۔ اس بربادی کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں بے چینی، انتہا پسندی اور جہالت نے خوب فروغ پایا، جس کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔
ماجد مجیدی، مصطفی عقّاد، فرزاد ڈبلیو، سید بدریہ اور نبیل ابو حرب جیسے افراد کو میں سلام پیش کرتا ہوں، جنھوں نے تمام تر مخالفت کے باوجود، اسلامی اقدار پر مبنی فلمیں بنا کر چراغ سحری کا سہی، کردار نبھانے کی کوشش کی ہے۔
سینما کے سلسلے میں برصغیر کے نوے فی صد علما کی یہی رائے ہے، کہ یہ حرام اور لہو لعب ہے، اس لیے شراب اور سور ہی کی طرح سینما اور فلموں کو اچھوت قرار دے دیا گیا ہے۔ اس میں ان کا دوش نہیں ہے، در اصل انھوں نے سینما کے نام پر ’’مغل اعظم‘‘ اور ’’پاکیزہ‘‘ ہی کو جانا۔ انھیں معلوم نہیں کہ یہ کمرشل سینما، فلم سازی کے فن کا ایک بہت معمولی اور کم تر حصہ ہے۔ سینما در اصل اظہار کا ایک موثر اور خوب صورت ذریعہ ہے۔ اپنی بات دنیا تک پہچانے کے معاملے میں جس قدر سینما کام یاب رہا ہے، اتنا نہ تو تحریریں رہیں اور نہ تقریریں۔ دنیا بھر میں یہودوں کو مظلوم ترین قوم کے طور پر اسی سینما نے شناخت دلائی۔ دنیا میں جو معیاری سینما ہے، اس میں بڑے بڑے مسائل اور سوالات کو دنیا تک پہنچایا جا رہا ہے۔ لوگوں کے خیالات تبدیل کیے جا رہے ہیں اور نظریات کو قائم کیا جا رہا ہے؛ ایسے میں ہم لکیر کے فقیر اب تک یہی نہیں جان پائے کہ فلمیں صرف ممبئی میں بننے والے ناچ گانے ہی کو نہیں کہتے۔
کاش ہم نے سینما کو اپنی بات کہنے کا ذریعہ بنایا ہوتا، تو آج ایک متبادل بیانیہ بھی دنیا کے سامنے ہوتا۔ ہم تو وہ عظیم قوم ہیں، جس میں خود ساختہ دین کے ٹھیکیدار کی برکت سے پرنٹنگ پریس صدیوں تک حرام قرار دے کر نہیں آنے دیا گیا۔ ایسے میں سینما جیسے ابلاغ کے عظیم ذریعے کی افادیت کہاں کس کو سمجھ آئے گی؟! سارا دُکھڑا ہی یہ ہے، کہ فلموں کو مسلمانوں نے بطور میڈیم استعمال نہیں کیا۔ اگر سینما کو اپنایا ہوتا تو تاسف اور شکایت کس بات کی تھی! صرف ممبئی کی نیلی پیلی فلموں ہی میں گم نہ رہیں اور جان لیں کہ دنیا بھر میں سینما، سنجیدہ اور حساس موضوعات پر، فنی باریکیوں کے ساتھ پیغام رسانی کا ذریعہ بن چکا ہے۔ بالی وُڈ کے لٹکے جھٹکے اور ناچ گانا ہی محض سینما نہیں ہے۔
محض ہولو کاسٹ پر اب تک تقریبا 160 بڑی فلمیں بن چکی ہیں۔ ایسے ہی دوسری جنگ عظیم پر 300 سے زیادہ بڑی فلمیں بنی ہیں۔ ان فلموں نے یہودیوں کے ساتھ مبینہ ظلم و زیادتی کا نظریہ ذہنوں میں نقش کر کے رکھ دیا۔ خود اپنے ملک میں تقسیم کے درد اور حالات پر ایم ایس ستھیو کی فلم ’’گرم ہوا‘‘ دیکھ لیجیے، تقسیم بنگال کے بعد کے انسانی المیے پر رتوک گھٹک کی ’’میگھے ڈھاکا تارا‘‘ پر نظر کیجیے۔ 1984 کے سکھ مخالف فسادات پر ’’31 اکتوبر‘‘ نام کی فلم کے بارے میں پڑھ لیجیے؛ یہودیوں کی مبینہ مظلومیت پر ’’فڈلر آن دی روف‘‘ اور ’’لائف از بیوٹی فل‘‘ کو دیکھ کر فیصلہ کر لیجیے۔ سینما نے انسانی زندگی کے آلام کو جتنا دنیا تک پہچایا ہے، اتنا تو کسی دوسرے میڈیم نے پہنچایا ہی نہیں۔ کیا آپ کو حیرت نہیں کہ جنگ ویتنام پر 80 بڑی فلمیں بنیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کی مبینہ ظالم حکومت پر ’’اُسامہ‘‘ جیسی عالمی شہرت یافتہ فلم بنی۔ یہ تو دو چار نام ہیں، جو ابھی ذہن میں آ گئے۔ اس موضوع پر کتابوں کی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔
اب زمانہ محض ٹیلی ویژن یا کیبل نیٹ ورک تک محدود نہیں رہ گیا، بلکہ اس سے بڑھ کر اس نے کہاں تک اپنے پاوں پسار لیے ہیں اور کہاں تک اس کی رسائی ہو گئی ہے، ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ایسے میں اگر کوئی اچھی چیز کہیں بھی بنتی ہے تو لوگ اس کو دیکھتے ہیں۔ ہمارے حلقہ احباب میں ایسے بہت سے ہیں، جو صرف پاکستانی نہیں، بلکہ ہالی وُڈ کے علاوہ دنیا بھر میں بننے والی فلمیں دیکھتے ہیں۔
کورین، چینی، نیپالی اب تو چھوٹے چھوٹے ممالک میں بھی لوگ اچھی فلمیں بنا رہے ہیں، انتہائی معیاری؛ جسے ہم جیسے لوگ بھی جن کا پیشہ ہی اس انڈسٹری سے وابستہ ہے، دیکھ کر حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ کیا ہندوستان میں پاکستانی فلم ’’بول‘‘ نے دھماکا نہیں کیا؟ کیا فلم ’’خدا کے لیے‘‘ نے، اپنی پہچان نہیں بنائی؟  ہمارے یہاں ہندوستان میں  پاکستان سمیت ترکی سیریل بھی انتہائی ذوق و شوق سے دیکھے جا رہے ہیں، جو خالص اسلامی اقدار پر مبنی ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایرانی فلموں نے بھی اپنی جگہ بنانے میں کام یابی حاصل کی ہے اور ہمارے یہاں ’’ای ٹی وی‘‘ میں تو عرصہ دراز تک ایرانی فلمیں بغیر ترجمے کے، دکھائی جاتی رہی ہیں اور ان فلموں کا ’’ٹی آر پی‘‘ بھی اچھا رہا۔
محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 168 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah