ڈاکٹر یاسمین راشد، عدالت عظمیٰ اور عوام کے بائیس ارب روپے


ڈاکٹر یاسمین راشد ایک معروف ڈاکٹر ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے گائینکالوجسٹ ہیں۔ معروف طبی اداروں میں تدریسی خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔ مسیحاوں کی رہبری میں اپنی نیک نامی کماچکی ہیں۔ مریض اور لواحقین ان کا نام ادب عزت و احترام سے لیتے ہی۔ طب سے وابستہ افراد میں ان کا ایک مقام ہے۔ سیاست کے خاردار راستوں میں بھی ان کا دامن ہر طرح کی گندگی سے محفوظ رہا ہے۔ لاہور میں شریفوں کے مقابل کسی شریف کا ٹھرنا بذات خود ایک بڑا کارنامہ ہے۔ یاسمین راشد کی ہردلعزیزی لاہور میں پی ٹی آی کی مقبولیت سے کہیں زیادہ تھی۔ اگرچہ وہ الیکشن جیت نہیں پائیں لیکن اس نے شریفوں کی مقبولیت می شگاف ضرور ڈال دیا۔

ڈاکٹر یاسمین راشد کو پنجاب کی وزارت صحت سے سرفراز کرنا عمران خان کا پنجاب میں سب سے معقول اقدام تھا۔ جہاں پی ٹی آئی ورکر اور عوام عمران خان کے بزدار کو وزیر اعلی بنانے کے فیصلے سے اندر ہی اندر مایوس تھے وہیں یاسمین راشد کے وزیر صحت بنائے جانے پر خوش تھے۔ ان کے خیال میں ڈاکٹر صاحبہ ایک سچی اور مخلص ورکر تھیں۔ اور پی ٹی آئی کی صحیح نمائندہ کہلائے جانے کی مستحق۔

ڈاکٹر یاسمین راشد کو چھ جنوری کو سپریم کورٹ میں دوبارہ پیش ہونا پڑا۔ دونوں بار چیف جسٹس کے سامنے انہیں خفت اٹھانا پڑی۔ ان کے حوالے سے عدالت نے انتہائی سخت ریمارکس دیے۔ حتیٰ کہ ان کے انداز تکلم کو بھی نا پسند کیا گیا۔ ان کی کارکردگی معزز عدالت کی نظر میں بشمول پوری پنجاب حکومت نکمی قرار دی گئی۔ ان کے نکمے پن کو عدالتی فیصلے کا حصہ بنادیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر ڈاکٹر صاحبہ نے ایسا کیا کئیا کہ عدالت برہم ہوئی۔

یہ پنجاب کڈنی لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ کیس تھا جس میں ڈاکٹر صاحبہ دوسری بار پیش ہوئی۔ پہلی بار بھی انہیں سبکی کا سامنا کرنا پڑا اور دوسری بار بھی۔ پہلی بار سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ پی کے ایل آئی ٹرسٹ توڑ دیا جائے۔ ڈاکٹر صاحبہ کا یہ جواب کہ مسودہ قانون وزارت قانون کو بھجوادیا گیا ہے۔ ہسپتال میں جلد ہی اپریشن شروع ہو جائیں گے۔ عدالت کو پسند نہیں آیا۔ عدالت نے سخت لہجہ اپناتے ہوئے فرمایا کہ ڈاکٹر صاحبہ اب گا، گے، گی سے کام نہیں چلے گا، آپ کی اور حکومت پنجاب کی نالائقی ثابت ہو رہی ہے۔ ہم حکومت کی مدد کرنا چاہ رہے ہیں مگر حکومت اپنا کام نہیں کرنا چاہ رہی۔

چھ ماہ پہلے اسی معزز عدالت کے سامنے ڈاکٹر سعید کھڑے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہیں اس سے بھی زیادہ مشکل سوالات کا سامنا تھا۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ بارہ لاکھ تنخواہ کیوں لے رہے ہیں۔ آپ نے اپنے دفتر میں شہباز شریف کی تصویر کیوں لگائی ہوئی ہے ؛قائد اعظم کی تصویر کیوں نہیں لگائی ان کے جوابات سے بھی عدالت مطمئن نہیں ہوئی تھی اور پی کے ایل آئی کے آڈٹ کا حکم جاری کر دیا تھا۔

پنجاب کڈنی لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ میاں شہباز شریف کے دور حکومت میں حکومت پنجاب کا پبلک پاٹنر شپ کے تحت تعمیر کردہ ہسپتال ہے۔ یہ ہسپتال تقریباً پچپن ایکڑ میں ڈیفینس 6 اور بیدیاں روڈ کے درمیان واقع ہے۔ ہسپتال کی لاگت پر بائیس ارب روپے خرچ آیا ہے۔ ابھی آٹھ سو بیڈ پر مشتمل بعد ازاں پندرہ سو بیڈ پر محیط امراض جگر، گردہ اور مثانہ کے مفت علاج کے لئے ایشیا کا سب سے بڑا ہسپتال بننے جارہا ہے۔ یہاں گردے اور جگر کی پیوندکاری کی سہولت ہوگی۔

جگر کی پیوند کاری کا یہ پاکستان کا پہلا ہسپتال ہے۔ قبل ازیں جگر کی پیوند کاری کے لئے لوگوں کو انڈیا جانا پڑتا تھا۔ اس ہسپتال میں پانچ ہزار ڈاکٹر، نرسیں اور پیرا میڈیکل سٹاف نوکری اور تربیت کی سہولت حاصل کر سکیں گے۔ سر دست سو بیڈ کا آی سی یو بنایا گیا ہے۔ سو بیڈ ایمرجنسی اور سو بیڈ شعبہ بیرونی مریضاں کے ڈایالائسز کے ساتھ ساتھ پانچ سو بیڈ کا وارڈ تعمیر کر دیا گیا ہے۔

ہسپتال کی تعمیر کے بعد اس کا نظم و تسق بورڈ آف ٹرسٹیز کے سپرد کیا گیا تھا۔ اسی کے زیر انتظام ڈاکٹر سعید کو ذمہ داری تفویض کی گئی تھی۔ ڈاکٹر سعید 2004 سے الشفا اسلام آباد میں کڈنی سنٹر چلا رہے تھے۔ وہ ماہر امراض گردہ و مثانہ ہیں۔ قبل ازیں وہ امریکہ میں طبی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ عدالت نے حکومت پنجاب کو اسی بورڈ آف ٹرسٹیز کے حوالے سے حکم دیا تھا جس کو پورا کرنے میں حکومت پنجاب ناکام رہی اور ڈاکٹر یاسمین راشد کو خفت اٹھانا پڑی۔

ڈاکٹر یاسمین راشد اور حکومت پنجاب کو پوری ذمہ داری کے ساتھ عدالت عظمے ٰ کو مطمئن کرنا چاہیے تھا۔ جہاں حکومتیں اور اعلیٰ عہدیدار خود غرضی اور لوٹ مار میں مصروف رہتے ہوں وہاں ایسے رفاہی اداروں اور ہسپتالوں کا قیام قابل صد ستائش اقدام ہے۔ اس ہسپتال کو اسی خوبصورتی کے ساتھ غریب عوام جو پسماندگی غربت اور مہنگائی کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کی لوٹ مار کے ڈسے ہوئے ہیں، کی جلد از جلد خدمت کے قابل بنانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔

عوام کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ہسپتال کا نظم و نسق کون سنبھالے۔ ٹرسٹ کے حوالے کریں یا حکومت خود ہسپتال کا نظم و نسق چلائے۔ اخراجات کا آڈٹ ہو یا نہیں۔ عوام کو علاج کی وہ بہتر سہولیات ملنی چاہئیں جس کے لئے حکومت پنجاب نے عوام کے بائیس ارب روپے خرچ کیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).