دوروزہ جشنِ توقیر ڈاکٹر شاداب احسانی


عروس البلاد کراچی میں مشاعروں کی تاریخ تحقیق کے مطابق 1870 ء سے تاحال جاری ہے۔ کراچی کی ادبی تاریخ یادگار مشاعروں کے سنہری ادوار اپنے سینے میں دبائے ہوئے ہے انیسویں صدی کی ساتویں دہائی سے لے کر اکیسویں صدی کی انیسویں دہائی تک یہ سلسلہ دبستانِ کراچی کی انفرادی اورنمایاں ادبی روایات لیے جنوری کے پہلے ہفتے تک آپہنچا ہے تہذیب انٹرنیشنل کے روحِ رواں کشور عدیل جعفری اوران کے احباب نے مل کردبستانِ کراچی کے افق پروہ چاند چڑھایا کہ اب آنے والے مشاعروں میں اس چاند کی چمک سے کامیابی کافال نکالا جائے گا۔ دوروزہ جشنِ توقیرڈاکٹرشاداب احسانی کل پاکستان مشاعرہ کراچی کی ادبی تاریخ کا اہم اوریادگارمشاعرہ اس وجہ سے بھی ہے کہ اس قبل اہم شعراء وادباء کی شخصیت کے حوالے سے یادگار مشاعرے ان کی برسی یاولادت کے جشن ِ زریّں، جشنِ طلائی کی مناسبت سے منعقد کیے جاتے رہے ہیں۔

2019 ء جنوری کادوروزہ تاریخی مشاعرہ دبستانِ کراچی کے مشاعروں کی تاریخ میں اک نیا باب ہے۔ چارجنوری کومنعقدہ اس مشاعرے کی پہلی نشست میں چارتاریخ کی مناسبت سے چارمقالات اورماہِ اوّل کی نسبت سے ایک نظم شامل کی گئی تھی۔ اسکاؤٹ آڈیٹوریم کراچی کے مرکزی دروازے سے مسندِ جشن تک آویزاں بینرز، پینافلیکس الگ ہی منظر پیش کررہے تھے گویا درودیوار ’چشمِ ماروشن دلِ ماشاد‘ کی تفسیر دکھائی دیتے تھے۔ تقریب کاآغاز تلاوتِ کلامِ پاک کے بعدنعتِ رسول مقبول ﷺسے ہوا۔ نظامت کے فرائض شہاب الدین شہاب اورڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر نے انجام دیے۔ مقالہ نگاروں میں لاہورسے معروف شاعر حسین مجروح جبکہ کراچی سے ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی، ڈاکٹر ذکیہ رانی، حکیم غلام محی الدین شامل تھے۔ منظوم خراجِ تحسین معروف شاعروصحافی اخترسعیدی نے پیش کیا۔ منتخب اشعارملاحظہ کیجئے۔

نشانِ شادمانی ڈاکٹر شاداب احسانی

ہے میرا یارِ جانی ڈاکٹر شاداب احسانی

ہے یہ شاداب احسانی کی تقریبِ پذیرائی

مبارکبادیاں دیتی ہوئی بادِ صبا آئی

یہ شاعر بھی معلم بھی ہیں نقادِ سخن بھی ہیں

یہ خود ہی انجمن میں ہیں چراغِ انجمن بھی ہیں

یہ شعروشاعری میں لہجہ ئی بے باک رکھتے ہیں

عروضی مسئلوں کے حل کابھی ادراک رکھتے ہیں

مثالِ گوہرِ نایاب رکھّے عمر بھر اختر

خدا شاداب ؔ کو شاداب رکھّے عمر بھر اختر

مہمانانِ خصوصی میں حسن عباس رضا (اسلام آباد) اورمعروف شاعراستاد پروفیسرسحرانصاری شامل تھے۔ حسن عباس رضا نے صاحبِ جشن اورتہذیب انٹرنیشنل کو مبارکباد پیش کی۔ پروفیسرسحرانصاری نے اپنے خطاب میں ڈاکٹر شاداب احسانی کی شخصیت اورفن کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئن فراسو حیات وخدمات‘ ان کا پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ ہے کوئی عام محقق ایک مخطوطے پر ہی تحقیق کرلیتا لیکن انھوں نے دوسرا مخطوطہ تلاش کرکے اس کے تقابل کے بعد اپنے مقالے کی تسوید کی دوسرامخطوطہ بھی شائع کردیاتحقیق میں ان کایہ کام ان کی علمی وقعت بڑھاتا رہے گاجبکہ شاعری میں بھی ان کا لہجہ ممیّز وممتاز ہے۔

تہذیب انٹر نیشنل نے ان کا جشن منا کرایک استاد، شاعراورایک اچھے انسان کی پذیرائی کی ہے جو قابلِ تحسین ہے۔ اس نشست کے صدارتی خطاب میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے صاحبِ جشن کی بحیثیت استادشعبہ اردوجامعہ کراچی علمی وادبی سرگرمیوں کاتذکرہ کیا ان کا کہنا تھا کہ شاداب کامیاب استاد کیوں ہیں؟ تو اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اس شعبہ تدریس میں بقائمِ ہوش وحواس آئے ہیں استاد صرف نصاب نہیں پڑھاتا زندگی کے رموز سے آگاہی بھی دیتا ہے۔

ان کی شاعری وقت اورکائنات کے احوال کاآئینہ ہے اپنے اطراف کی زندگی اورمستقبل بینی ان کی شاعری کے اہم اجزاء شمارکیے جاسکتے ہیں اپنے خطبے میں انھو ں وقت کی توقیر کا احساس دلایا جس کاسبب تقریب کاتاخیر سے آغاز تھابعدازاں انھوں نے صدر تہذیب انٹرنیشنل کشورعدیل جعفری کوشاندار کامیاب جشن کے انعقاد پر مبارک باد دی۔ پہلی نشست کے اختتام پر تمام مقالہ نگاروں اورمہمانانِ خصوصی کو پروفیسرڈاکٹرشاداب احسانی نے گلدستے اورتہذیب انٹرنیشنل کی اعزازی شیلڈ پیش کی بعدازاں صدرِ مجلس ڈاکٹرپیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے صاحبِ جشن کو تہذیب انٹر نیشنل کی جانب سے خصوصی شیلڈپیش کی، پروفیسر سحر انصاری، حسین مجروح، حسن عباس رضانے تہذیب انٹرنیشنل کی جانب سے شال کاتحفہ پیش کیا۔ صاحبِ جشن کوڈاکٹر رخسانہ صبا اورڈاکٹرذکیہ رانی نے گلدستہ جبکہ ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی نے اجرک کاتحفہ اورگلدستہ نذر کیا۔ حلقہئی شاداب احسانی کی جانب سے ڈاکٹرذکیہ رانی نے کشورعدیل جعفری کوگلدستہ پیش کیا۔

پہلے روز کی دوسری نشست یعنی ’جشنِ توقیر ڈاکٹر شاداب احسانی کل پاکستان مشاعرہ‘ کاآغاز کچھ ہی لمحوں بعد کردیا گیا دوسری نشست کی صدارت بھی ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کی جبکہ مہمانانِ خصوصی میں پروفیسر سحر انصاری، حسین مجروح، حسن عباس رضا اورصاحبِ جشن ڈاکٹرشاداب احسانی شامل تھے۔ شعرائے کرام میں حسن عباس رضا (اسلام آباد) ، حسین مجروح (لاہور) ، ڈاکٹر عتیق جیلانی (حیدرآباد) محسن شکیل (کوئٹہ) ، حسن عباسی (لاہور) عظمی جون (سبّی) ، عمیرنجمی (رحیم یارخان) صفدرصدیق رضی، عقیل عباس جعفری، وضاحت نسیم، اختر سعیدی، ریحانہ روحی، سبکتگین صبا، فہیم شناس کاظمی، نثاراحمدنثار، صفدرعلی انشاء، احمد سعید خان، خالد رانا، آئیرین فرحت، کامران طالش، میزبان شعراء کشورعدیل جعفری، محسن رضادعا اورنظامت کارشہاب الدین شہاب، ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر شامل تھے۔ پہلی نشست تاآخری نشست کے آخری شعر تک تہذیب انٹر نیشنل کے مستعد اورمتواضع کارکنان نے مہمانوں اورحاضرین کی چائے سے تواضع کرکے تہذیبی رنگ جمادیا یہ سلسلہ طعام کے بعد بھی جاری رہا رات گئے پہلے روزکاجشن بخیر وخوبی اختتام پذیر ہوا۔

دوسرے دن ’ایک باردیکھا ہے دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے‘ کے مصداق شام ہی سے اسکاؤٹ آڈیٹوریم میں مہمان شعراء اورحاضرین کی آمد شروع ہوگئی۔ جشنِ توقیر ڈاکٹر شاداب احسانی کل پاکستان مشاعرہ کا دوسرا دن پہلے دن سے زیادہ دلچسپ ثابت ہوا۔ دوسرے دن مشاعرے کی صدارت معروف شاعر اوراستادپروفیسرمنظرایوبی نے کی جبکہ مہمانانِ خصوصی میں انور شعور، رونق حیات، امجد اسلام امجد، عباس تابش اورمہمانِ اعزازی صاحبِ جشن پروفیسرڈاکٹر شاداب احسانی شامل تھے۔

نظامت کے فرائض ڈاکٹراقبال پیرزادہ اورڈاکٹررخسانہ صبا نے انجام دیے۔ شعرائے کرام میں لاہور کی نمائندگی امجد اسلام امجد، عباس تابش، باقی احمد پوری، شکیل جاذب، ناصر رضوی نے کی دیگر شہر وں سے شاہد زمان۔ کوہاٹ، راناسعید دوشی۔ ٹیکسلا، نوید سروش۔ میرپورخاص، شہباز نیئر۔ رحیم یارخان، مہدی حسن مہدی۔ ڈیرہ غازی خان شامل تھے کراچی کے اہم شعرائے کرام یہ تھے۔ فراست رضوی، لیاقت علی عاصم، عارف شفیق، فاطمہ حسن، جاوید صبا، میراحمد نوید، راشد نور، خالد معین، سعیدآغا، اجمل سراج، نسیم نازش، آصف رضا رضوی، شاعرحسین شاعر، سلمان صدیقی، حجاب عباسی، حامد علی سیّد، فیاض علی فیاض، ریحانہ روحی، مقبول زیدی، سحرتاب رومانی، پرویز نقوی، کاشف حسین غائر، اسد قریشی، میزبان شعراء کشورعدیل جعفری، محسن رضا دعا۔

تقریب کاآغاز عاشق شوقی نے تلاوتِ کلام پاک سے کیا۔ ہدیہ نعت شعبہئی اردوجامعہ کراچی کے طالب علم محمد حسن نے پیش کیا۔ بعدازاں مہمان شعراء کو تہذیب انٹر نیشنل مشاعرہ کمیٹی، استقبالیہ کمیٹی اورصدرتہذیب انٹر نیشنل نے یادگاری شیلڈ پیش کیں۔ دوسرے روزکامشاعرہ بھی رات گئے اختتام پذیر ہوا حاضرینِ ذی وقار نے شعرائے کرام کو داد کے گلدستے پیش کیے یہ طویل نشست برمحل فقروں نظامت کاروں کی حاضر جوابی کے سبب یادگار بن گئی مہمانِ اعزازی صاحب ِ جشن نے کشورعدیل جعفری اور ان کی ٹیم کو عمدہ انتظامات اوربے مثل دورزوہ مشاعرے کے انعقاد پر مبارک باد دی، امجد اسلام امجد مشاعرے کے بعد سے روانگی سے قبل تک طلبامیں گھرے رہے۔ صدرِ مشاعرہ منظر ایوبی نے تہذیب انٹر نیشنل کو اس کامیاب مشاعرے پر دعائیں دیں اورامید ظاہر کی کہ یہ تسلسل جاری رہے گا۔ طعام کے بعد چائے اورتصویروں کا سیشن رات گئے تک جاری رہا۔

دوروزہ جشنِ توقیر ڈاکٹر شاداب احسانی کل پاکستان مشاعرہ اپنی نوع کا بے مثل اورشاندار مشاعرہ قراردیا جارہا ہے۔ مہمان شعراء وادباء تو اس کی داد دے ہی رہے ہیں حاضرین باتمکین بھی ایسی ہی کسی ادبی نشست کے انتظارمیں تھے۔ اس مشاعرے نے اسکاؤٹ آڈیٹوریم کو گویا منی پاکستان بناڈالا تھا جو کہ کراچی کاطرّہ ئی امتیاز ہے۔ منفرد لب ولہجے کے غزل گو، نظم گو شعراء کوخوب دادِ تحسین ملی۔

دوروزہ جشنِ توقیر ڈاکٹر شاداب احسانی کل پاکستان مشاعرہ کی اہمیت اوربھی دوچند ہوئی جب استقبالیہ کے ساتھ ہی ’تہذیب بک اسٹال‘ پر نگاہ گئی۔ اس بک اسٹال پرمعروف شعراء، ادباء کی تصانیف اورمؤقر رسائل وجرائد رعایتی نرخوں پر دستیاب تھے اوران رسائل میں تہذیب کا خصوصی مجلہ مرکزِ نگاہ ٹھہراتھا روزِ اوّل تا روزِ دوم آخر وقت یہ مجلہ حاضرین میں بلاقیمت تقسیم کیا گیا۔ اس مجلے کے 28 صفحات گویا دریا کوکوزے میں سمائے ہوئے ہیں۔ اس کے مندرجات میں ’سپاس نامہ‘ کے عنوان سے صدرتہذیب انٹرنیشنل کشورعدیل جعفری کاتحریر کردہ اداریہ اس جشن کے اغرض ومقاصد اورمستقبل کے اہداف کاترجمان ہے۔ کشورعدیل جعفری رقمطراز ہیں :

”فی زمانہ انٹر نیٹ، کمپیوٹر اوراسمارٹ فون جیسی ایجادات نے نوجوان نسل کونہ صرف کتاب سے بلکہ اپنی ادبی روایات اورثقافتی ورثے سے بھی دورکردیا ہے۔ ان میں مطالعے کی عادت ناہونے کے برابر ہے۔ ادبی مذاکرے اورمباحثے ختم اورلائبریریاں ویران ہوچکی ہیں۔ ان ہی حالات کے پیشِ نظر تہذیب انٹرنیشنل نے نہ صرف اچھی کتابوں کی اشاعت کابیڑا اٹھایا بلکہ خوبصورت اورمنفرد ادبی تقریبات منعقد کرکے اپنی تہذیبی روایات اورادبی ورثے کوزندہ رکھنے کے عمل کو مشن کے طورپر قبول کیا۔

جشنِ توقیر ڈاکٹرشاداب احسانی اورکل پاکستان مشاعرہ ان تقریبات کے سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ ہرشعبہ ئی زندگی کی طرح ادب کے شعبہ میں بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کی شخصیت اورجن کا کام خود کہہ رہا ہے کہ انھیں سراہا جاناچاہیے بلکہ سراہا جانا اُن کا حق ہے۔ ڈاکٹر شاداب احسانی ایسی ہی شخصیت کانام ہے۔ وہ صرف بڑے ادیب ہی نہیں بڑے انسان بھی ہیں گویا ”جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ“۔ تہذیب انٹر نیشنل کے زیرِ اہتمام یہ جشن ڈاکٹر شاداب احسانی کی چالیس پچاس سالہ ادبی خدمات کا اعتراف بھی ہے اوراُن کا جشنِ صحت بھی۔ ”

عارف شفیق کا مختصر مضمون ’ہماری تہذیب اورمشاعرے‘ کے عنوان سے کراچی کے تاریخی وادبی احوال سے لے کرقیامِ پاکستان کے بعدکی ادبی فضا کا احساس بیان کرتا ہے اورعصرِ حاضر میں تہذیبی بازیافت کی اہمیت پر روشنی بھی ڈالتا ہے عارف شفیق لکھتے ہیں :

” مشاعرے ہماری تہذیب کا ایک بنیادی حوالہ ہیں اوراردومشاعرے توہماری قومی یکجہتی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کشورعدیل جعفری اورمحسن رضادعا نے اردوزبان اورمشاعرے کی روایت کوزندہ رکھنے کے لیے جس کل پاکستان مشاعرے کا اہتمام کیا ہے یقینا یہ مشاعرہ ہمارے ذہنوں اوردلوں میں اپنی تہذیب کے خدوخال ابھارنے میں اہم کردارادا کرے گاکیوں کہ ابھی ہماری تہذیب مٹی نہیں ہے ابھی ہماری قومی زبان اردوزندہ ہے صرف وقت اورحالات کی دھند میں لپٹی ہوئی ہے جیسے جیسے یہ دھند چھٹتی جائے گی ویسے ویسے ہماری تہذیب کے خدوخال بھی نمایاں ہوتے جائیں گے اوراردوزبان ساری قوم کی ترجمانی کرے گی

میری تہذیب بھی زندہ رہے گی

سدا اردو زبان کی چاشنی میں ”

پروفیسرڈاکٹر شاداب احسانی کا مضمون ”شاعری اورہمارا معاشرہ“ مجلے کی وقعت اَور بڑھاتا ہے۔ صاحبِ جشن دنیا کے ہرمعاشرے کوشاعری کامقروض بتاکر سومیرین سے لے امریکہ تک کے احوال کو نہایت خوبی سے تحقیقی وتاریخی استدلال کے ہمراہ اس سوال تک لائے کہ

”ہم یہ کہتے ہیں کہ شاعری پڑھنے والے اورشاعری سننے والے نہیں رہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری شاعری معاشرے کی ترجمانی کررہی ہے؟ اگر کررہی ہے تو پھر قاری، سامع یا ناظر کو غائب نہیں ہونا چاہیے“

اورپھراس سوال کاجواب ان کے اس داعیہ سے جاملتا ہے جسے انھوں نے ”پاکستانی بیانیہ“ کا نام دیا ہے۔ پاکستانی بیانیے کی عدم موجودگی ہمارے ادب اورشاعری کے ابلاغ اورمعاشرے کی ترجمانی کرنے سے محروم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی بیانیے کے بغیر پاکستان میں اردوشاعری کے سامعین گھٹتے جارہے ہیں۔ اس خصوصی مجلے کے دیگر مشمولات میں ’استاد گراستاد۔ ڈاکٹرشاداب‘ ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی، ’ڈاکٹرشاداب احسانی کی شاعری‘ ڈاکٹر رخسانہ صبا، ’شاداب شاعری‘ ڈاکٹر عظیم اقبال (لاہور) ، ’میرے استادِ محترم ڈاکٹر شاداب احسانی‘ ڈاکٹر ثروت رضوی، ’دفتر لکھے گئے نہ ہوا پر سخن تمام‘ ڈاکٹر ذکیہ رانی، ’یہ شمع تو فروزاں ہی ہوا کی زد پہ ہوتی ہے‘ حکیم غلام محی الدین، ’سرسبز وشاداب شاعری کا سرخیل شاداب احسانی‘ ڈاکٹر احمد علی، ’ڈاکٹر شاداب احسانی کا کارنامہ‘ حنیف عابد۔ نئے مقالات کے ساتھ ساتھ 1987 ء میں شائع شدہ معتبراہلِ قلم کے شذرات میں کنورمہندرسنگھ بیدی، امیر حسنین جلیسی اورمعروف شاعر دلاور فگارکی نظم ’پسِ گرداب‘ نے اس مجلے کی وقعت کو بڑھادیا ہے۔

دوروزہ جشنِ توقیر ڈاکٹر شاداب احسانی کل پاکستان مشاعرہ 5۔ 4 جنوری کو منعقد کیا گیا تادمِ تحریر اس کی پذیرائی مبارکبادیں اوردعائیں صاحبِ جشن اورمنتظمین کی سرخروئی پر دال ہیں۔ دعا ہے تہذیب انٹرنیشنل کے صدرکشورعدیل جعفری، محسن رضا دعا اوران کے احباب کراچی کے تہذیبی منظرنامے میں زندہ شناسی کے مزید نئے چراغ روشن کریں گے اوراس مشاعرے کی مانندمزیدنئی روایات کاتسلسل قائم کرتے ہوئے اپنا تاریخی کردار نبھائیں گے۔ تہذیب انٹرنیشنل کے لیے ظفرمعین بلّے نے کیاخوب کہا:

جشن دو روزہ ہے یہ شاداب احسانی کے نام

مرحبا تہذیب نے اس کا کیا ہے اہتمام

جھلملا اٹھّے ہیں سارے شہر کے دیوار و بام

تیری خدماتِ جلیلہ کا ہے چرچا صبح و شام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).