تجھ کو منظور ہے یہ ہاتھ قلم ہو جائیں ؟


\"zeeshan چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملہ انسانیت پر حملہ ہے .  اس یونیورسٹی پر حملہ دہشت گردوں کے ان عزائم کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ عدم تشدد کے نظریات کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں، ان کا مقابلہ علم اور اس سے جنم لینے والی انسان دوست اقدار سے ہے. انہیں جمہوریت سے نفرت ہے کیونکہ وہ پاکستان میں شہریت کی مساوات اور سیاسی زندگی میں لوگوں کے حق انتخاب کے منکر ہیں. ان کا تصور انسان یہ ہے کہ ہر انسان جب آزاد ہو جاتا ہے تو وہ گمراہ ہو جاتا ہے، شیطان کا مددگار بن جاتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ فرد کی آزادی کو پابند کر دیا جائے اور ان کو اپنے من پسند رجعت پسندانہ مذہبی قوانین میں جکڑ دیا جائے. ان کے نظام میں عورت یا تو لونڈی کے روپ میں جنسی غلام ہے یا بیوی کے رشتہ میں مجازی خدا کے حضور ایک فرمانبردار خدمت گار جس کا واحد مقصد مرد کی خوشی کا سبب بننا ہے. ان کا تصور شہریت غلام و آقا، اور مسلم و ذمی میں بٹا ہوا ہے. وہ بچوں میں انسانی ترقی و خوشحالی کے امکانات نہیں دیکھتے بلکہ ان میں انہیں عظیم فتنہ گر نظر آتے ہیں جنہیں شدت پسندی کے مقاصد میں استعمال کیا جا سکتا ہے. وہ مذہب کے نام پر انسانی زندگی کے ہر گوشے میں جبر نافذ کرنا چاہتے ہیں. وہ سیکولر ازم کے حریف ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ایک اسلامی ریاست میں شہریت کی مساوات نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی. صرف فاتح شہری ہے اگر وہ ہم مذہب ہے، بقیہ مفتوح یا تو غلام ہیں یا ذمی جن کا ریاست میں درجہ مغلوب رعایا کا ہے. وہ انسانی آزادیوں کے دشمن ہیں اور حقیقتاً ان کا مقابلہ آزادی پسند انسان دوست اقدار سے ہے. یہ بنیادی بات سمجھے بغیر ان کے خلاف لڑائی میں کامیاب منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی.

اب تک دہشت گردی کے خلاف جو لائحہ عمل اختیار کیا گیا ہے، اس کا بنیادی مقدمہ یہ رہا ہے کہ دہشت گردوں کے کیمپ اکھاڑ دو، دہشت گردی بھی ختم ہو جائے گی. یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی تک دہشت گردوں کے تمام کیمپ ختم نہیں کئے جا سکے. شمالی وزیرستان میں ضرب عضب ہنوز نامکمل ہے. بلوچستان ایران بارڈر کے پاس ان کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں قائم ہیں. بلوچستان ان کے لئے ہنوز پسندیدہ جگہ ہے جہاں ریاست بلوچ عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی میں انہیں اسٹریٹجک اثاثوں کے طور پر استعمال کر رہی ہے. تمام قبائلی ایجنسیاں ان سے صاف نہیں، چھوٹے چھوٹے کیمپ ہنوز کام کر رہے ہیں. شہری آبادیوں خاص طور پر پنجاب کے شہروں میں یہ نسبتاً محفوظ ہیں. افغانستان میں پاکستان سے ملحقہ علاقوں کا ایک بڑا حصہ داعش کے کنٹرول میں جا چکا ہے اور بعض اطلاعات کے مطابق داعش نے پاکستان و افغانستان کے لئے کچھ فنڈ بھی مختص کئے ہوئے ہیں جن سے وہ اپنا دائرہ کار بڑھا رہے ہیں. تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروپس کے سرکردہ رہنما داعش کی بیعت کر چکے ہیں.

تحریک طالبان افغانستان سے پاکستانی عسکری ادارے کے بعض حصوں کے ابھی تک دوستانہ رابطے ہیں. عالمی طاقتوں، افغانستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے لئے ہم افغانی طالبان کی سرپرستی کر رہے ہیں، یوں ان کے اثاثے پاکستان میں کام بھی کر رہے ہیں محفوظ بھی ہیں اور افغانستان میں بعض دہشت گرد کارروائیوں کے لئے منصوبہ بندی بھی یہیں سے ہو رہی ہے. ان کی قیادت کا ایک بڑا حصہ پاکستان میں مقیم ہے مگر اس کے باوجود ہماری خواہش ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف لڑائی میں افغانستان ہم سے مکمل تعاون کرے.

حقیقت یہ ہے کہ سیکھنے نام کی کوئی صلاحیت ہم میں نہیں. ابھی آٹھ جنوری دو ہزار سولہ کو جنرل ضیا الدین بٹ ’دن ٹی وی‘کو دیئے گئے انٹرویو میں جہادی تنظیموں کو اپنی پانچویں سے چھٹی دفاعی لائن قرار دے رہے تھے اور فرمایا کہ ہم ان گروپس کو پروموٹ کرتے رہیں گے. کچھ ماہ قبل الجزیرہ ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں جنرل اسد درانی فرما رہے تھے کہ آرمی پبلک اسکول جیسے واقعات اسٹریٹجک لڑائی میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے. یہی وہ مائنڈ سیٹ ہے جو ابھی تک اچھے اور برے جہادی کی تقسیم پر عمل پیرا ہے. جماعت الدعوہ ہنوز ہیئت مقتدرہ کا دست و بازو ہے. جیش محمد جیسی وہ تمام تنظیمیں جو ریاست کی کشمیر بلوچستان اور سندھ کے دیہی علاقوں میں توسیع پسندانہ اور مہم جو عزائم میں مددگار ہیں بدستور کام کر رہی ہیں اور اقتدار کے کچھ مزعومہ حقیقی مالک ان کی درپردہ سرپرستی کر رہے ہیں.

سوال یہ ہے کہ چارسدہ کا واقعہ کیا اچانک ہوا ہے ؟ ہماری سیاسی و عسکری قیادت آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے اعدادوشمار بڑھ چڑھ کر پیش کر رہی تھی۔ گزشتہ سال کے نصف آخر میں امن کمیٹی کے قبائلی عمائدین کو ٹارگٹ کلنگ میں شہید کیا گیا۔ ریاست انہیں سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی. یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے طالبان کے قبائلی علاقوں میں مکمل کنٹرول کے باوجود ریاست سے تعاون کیا. پھر آہستہ آہستہ سرکاری اداروں پر چھوٹے چھوٹے حملوں کا آغاز ہوا. حملوں کی شدت بڑھتی گئی مگر ہمیں بار بار یہ خوش خبری سنائی جاتی رہی کہ سب ٹھیک چل رہا ہے. یہاں خبر اور اس کا ردعمل اتنا سنسر ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ منگل اور بدھ کے دو روز میں ہم نے سو شہیدوں کی لاشیں اٹھائی ہیں. حالیہ چارسدہ واقعہ کا ’ذمہ دار تجزیہ‘میڈیا سے سنسرڈ ہے، صرف یہی پڑھایا جا رہا ہے کہ ہماری سیکورٹی ایجنسیوں نے چاروں حملہ آوروں کو مار گرایا، ہم بڑے نقصان سے بچ گئے، آپ تصور کریں کہ ارباب اختیار کے نزدیک یہ کوئی بڑا نقصان نہ تھا.

مسئلہ کی جڑ چار ذہنی عارضے ہیں.

 مہم جو نفسیات : ہم دو ہمسایہ ریاستوں سے خاص طور پر خوف زدہ ہیں. ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم دشمن کے گھر میں گھس کر دشمن کو تباہ کرنے والے دوست پیدا نہ کرتے رہے تو دشمن ہمیں تباہ کر دے گا. یہ نفسیات اتنی پختہ ہے کہ آپ دنیا بھر کا بین الاقوامی تعلقات کا لٹریچر سامنے رکھ دو، کوئی اثر نہیں ہونے والا، کہ صاحبو کوئی کسی ملک کو تباہ نہیں کر سکتا اگر وہاں سول آزادیاں محفوظ ہیں، معاشی خوشحالی ہے، تعلیم و صحت کا چلن ہے اور امن و مسکراہٹ کا بول بالا ہے.

دوم: ہئیت مقتدرہ کی سوچ اپنے ادارہ جاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے جس کے لئے تمام توانائیاں ضائع کر دی جاتی ہیں. مثال کے طور پر کراچی میں رینجرز اور سول اداروں کی باہم چپقلش تازہ مثال ہے. پاکستان کی خارجہ پالیسی اب بھی جی ایچ کیو بناتا ہے اور ملیحہ لودھی جیسے دماغ ایک فوجی کپتان یا میجر سے خارجہ پالیسی کا ویژن لیتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں. چیف آف آرمی سٹاف وزیر خارجہ کی حیثیت سے بیرونی ممالک کے دورے کرتے ہیں. یہ اس خوف میں جی رہے ہیں کہ کہیں عالمی طاقتوں سے قربت میں سویلین ہمارے خلاف سازشیں ہی نہ کر رہے ہوں.

سوم: آپریشن ضرب عضب اور دوسرے سیکورٹی بندوبست میں کارروائی کی ساری طاقت جی ایچ کیو کے قبضہ قدرت میں رہی ہے اور سول اداروں جیسے پولیس کو اختیارات دیئے گئے ہیں اور نہ انہیں تربیت دی گئی ہے، اور نہ ایسی کوئی طویل مدتی پالیسی بنائی گئی ہے جس کی بدولت ہمارا معاشرہ سول سیکورٹی اداروں کی کارکردگی کے سبب محفوظ رہ سکے. سیکورٹی کے جملہ انتظامات میں قوم صرف ہئیت مقتدرہ کی طفیلی بن کر رہ گئی ہے جس کا صرف رائج و قابض ’سٹیٹس کو‘ ہی کو فائدہ ہو رہا ہے. سول اداروں کی نااہلی میں سیاسی قیادت بھی برابر کی ذمہ دار ہے.

چہارم: مسئلہ کا سب سے بڑا سبب دہشت گردی اور شدت پسندی کے مددگار ہیں جو پورے معاشرہ پر قابض ہیں. جمعہ کے خطبوں میں ساری قوم ان کے سامنے دوزانو ہوتی ہے. مدرسہ میں غریبوں کے بے سہارا بچے شدت پسندی کی اس فیکٹری میں بطور خام مال استعمال ہو رہے ہیں. دہشت گردوں کو خبر کی فراہمی اور پناہ دینے کے معاملہ میں یہ محفوظ پناہ گاہیں بدستور کام کر رہی ہیں. سول سوسائٹی کا کوئی فرد اگر دہشت گردی کے مقابلہ میں سر اٹھاتا ہے تو اس کا سر کچلنے کو ان کی خدمات ہی لی جاتی ہیں. بھارت و امریکہ کے خلاف کوئی مظاہرہ کروانا ہو یا مقتدر طبقہ کی حمایت میں سڑکوں پر آنا ہو، ان ہی کے لشکر حاضر خدمت ہوتے ہیں. پورا سماج ان کا قیدی ہے دہشت گردی کو یہ غذا مہیا کرتے ہیں مگر ان کا اخباری موقف یہی ہوتا ہے کہ دہشت گردی میں بھارت کا ہاتھ ہے، جب کہا جاتا ہے کہ جس کا بھی ہاتھ ہے اسے کاٹ دینا چاہئے تو جواب میں ’اگر مگر چونکہ چنانچہ‘ کی مدد سے دہشت گردی کے عفریت کو جواز مہیا کئے جاتے ہیں اور اسے فکری و اسٹرٹیجک مدد فراہم کی جاتی ہے.

افسوس ناک بات یہ ہے کہ کرتا دھرتا طاقتیں ان سے خوفزدہ ہیں. لاہور میں ایک جہادی تنظیم کے بارے میں مشہور ہو چکا ہے کہ اگر اس پر ہاتھ ڈالا گیا تو پورا وسطی پنجاب خون میں نہا جائے گا. ایک جہادی تنظیم جس کا صدر دفتر بہاولپور کا ایک مدرسہ ہے اس کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ اگر اسے ختم کیا گیا تو پورا جنوبی پنجاب خاک و خوں میں لتھڑ جائے گا. اس خوف کی نفسیاتی بنیادیں بھی وہی ہیں جو ابتدا میں طالبان سے لڑنے میں حائل تھیں.

گزشتہ ڈیرھ سال کی کارکردگی بتاتی ہے کہ ہم جنگ جیت رہے ہیں اور نہ ہار رہے ہیں، ہم درمیان میں لٹکے ہوئے ہیں. اگر واضح اور دوٹوک پالیسی پر عمل نہ ہوا جس میں شدت پسندوں، ان کے خیر خواہوں، ان کی محفوظ پناہ گاہوں اور شدت پسندی کے اسباب کو ختم نہ کیا گیا تو یہ جنگ طویل ہوتی جائے گا اور ہم زخموں سے چور ہو کر اوندھے منہ جا گریں گے .

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
9 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments