بھارتی طلبہ کو امتحان میں فیل کرنے کی اجازت دے دی گئی


حالات سے گھبرا کر تقریبا 25 ریاستوں نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ طلبہ کو فیل نہ کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ مرکز نے معاملہ کو سنجیدگی سے لیا اور 2017 میں حق تعلیم قانون میں ترمیم پیش کی گئی۔ اس کے تحت پانچویں اور آٹھویں جماعت میں طلبہ کو فیل نہ کرنے کی پالیسی ترک کرنے کی بات کہی گئی۔ البتہ اس میں یہ تجویز شامل کی گئی کہ اگر بچہ فیل ہو جائے تو اسے دوبارہ امتحان دینے کا موقع ملے۔ دوسری بار بھی اگر طالب علم پاس نہ ہو سکے تو ریاستی تعلیمی اداروں کو اختیار ہوگا کہ وہ طالب علم کو اسی کلاس میں روکنے کی پالیسی بنا سکتے ہیں۔ اس ترمیم میں یہ تجویز بھی شامل تھی کہ فیل ہوئے بچے کو کسی بھی صورت میں اسکول سے نہیں نکالا جائے گا۔

بِل آخر حق تعلیم قانون میں یہ ترامیم گذشتہ دنوں پارلیمنٹ نے منظور کر لی ہیں۔ گویا اب طلبہ کے فیل یا پاس ہونے کا نظام پھر سے لوٹ آئے گا اور لوٹ آے گا بچوں کا وہ خوف بھی جسے سوچ کر ہی وہ کانپ جاتے ہیں۔ شاید اس فیصلے سے کئی بچوں کی نیندیں بھی اُڑ گئی ہوں گی۔ جنہیں اب پھر سے اُسی امتحان سے گزرنا ہوگا۔ جو اُن کے فیل اور پاس ہونے کا فیصلہ کرے گا۔

ایک وقت تودل میں یہ بھی رحم آتا ہے کہ آخر اِن معصوم بچوں کو کیوں اس امتحان میں ڈالا جاتا ہے۔ ان کے ننے ذہنوں پر کیوں اتنا دباؤ بنایا جاتا ہے۔ کیا بنا امتحان کے دباؤ کے یہ بچے تعلیم یافتہ نہیں بن سکتے َ؟ کیا نہیں ہو سکتی؟
Learning without Effort

حکومت تعلیم کو لازمی بنانے کے ساتھ ساتھ تعلیمی سسٹم میں بھی تبدیلی چاہتی تھی۔ تو کیا نمبرات کی جگہ گریڈنگ سسٹم لانے سے تعلیم کا نطام بدل سکتا تھا؟ بچوں کو جماعت در جماعت آگے بڑھانے سے کیا اُن کا مستقبل سنور سکتا تھا؟ کیا اسکول انتظامیہ سے یہ کہا گیا تھا کہ بچوں کو قاعدے سے پڑھائے بنا ہی اگلی جماعت میں بھیج دیا جائے! تو پھر چوک کہا ہوئی؟

اس پر غور کرنے کے لئے یہاں ہم ایک اور موضو پر بات شروع کرنا چاہیں گے جو حق تعلیم قانون کے ساتھ متعارف کرائی گئی تھی۔
Comprehensive and Continuous Evaluation (CCE) System
یعنی بچوں کی صلاحیت جانچنے کے لئے ایک جامع اور مستقل نظام۔

اس پہلو پر اگر اسکول انتطامیہ نے سنجیدگی سے کام کیا ہوتا تو شاید اچھے نتائج آسکتے تھے۔ اس سسٹم میں ٹیچرس کو سخت محنت کرنی ہوگی اور بچوں کو لگاتار مونیٹر کرنا ہوگا یعنی بچوں کا لگاتار جائزہ لیتے رہنا ہوگا۔ یہ ٹیچرس کی ذمہ داری ہوگی کہ بچے کی شخصت کے سبھی پہلووں پر نظر رکھے جس میں اکیڈمک سے لے کر اُس کے شوق بھی شامل ہے۔ بچہ جس فیلڈ میں بہترین مظاہرہ کر رہا ہے اُس میں آگے ترغیب دی جائے اور اُس کا حوصلہ بڑھایا جائے۔

اس سسٹم کے تحت ٹیچر کو یہ دیکھنا ہوگا کہ اُس نے کلاس میں جو بھی پڑھایا ہے وہ بچے نے کتنا سیکھا ہے۔ جس کے لئے ٹیچرس کو وقتا فوقتا طلبہ کا جائزہ الگ الگ طرح سے لینا ہوگا۔ مثال کے طور پر کلاس میں ہفتے میں یا مہینے میں تحریری اور زبانی ٹیسٹ لینا، پروجیکٹس دینا، بچوں کو اسائنمٹ دینا تاکہ بچوں پر نصابی بوجھ بڑھائے بغیر ان کی صلاحیتوں کو بہتر بنایا جاسکے۔ اس میں شخصیت سازی کا فروغ یعنی پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کو بھی شامل کیا گیا ہے، بچے کے اخلاقی اقدار، عادات و اطوار اور دیگر سرگرمیوں پر نظر اور ان کو بہتر بنانا بھی اساتذہ کی ذمہ داری قرار پایا۔ مقصد یہ تھا کہ پڑھائی کا بوجھ کم ہونے سے بچے میں تخلیقی صلاحیت میں اضافہ ہوگا اور اُسکی ذہنی نشونما بہتر ہو سکے گی۔

یہ بات دلچسپ ہے کہ دنیا کے کئی حصوں میں گریڈنگ سسٹم اور فیل نہ کرنے کی پالیسی کامیاب رہی لیکن بھارت میں یہ تجربہ اچھا ثابت نہیں ہوا اور نوبت یہاں تک آگئی کہ اس کو ختم ہی کر دینا پڑا۔ اس ناکامی کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ دراصل کمی اس نظام میں نہیں بلکہ اس کے نفاذ میں برتی گئی غیر سنجیدگی میں ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس سسٹم کے ساتھ ایسا ٹیچر انصاف کر ہی نہیں سکتا جو اس کے بارے میں جانتا ہی نہ ہوں۔ ذرا ہمارے اسکولی نظام پر نظر ڈالئے کیا ایسے تربیت یافتہ ٹیچرس ہمارے اسکولوں میں موجود ہیں جو بچوں کا اس طرح سے جائزہ لے سکیں؟

جہاں ٹیچنگ بے روزگاروں کے لئے مجبوری کا سودہ بن گیا ہو وہاں بھلا اُن میں یہ شوق کیسے پیدا ہوگا کہ بچوں کا نفسیاتی جائزہ لیا جائے اور اُن کی صلاحیت کو نکھارا جائے۔ کم اُجرت پر ٹیچنگ کر رہے اُساتذہ کیوں اتنی سر دردی پالیں کہ یہ دیکھیں کہ بچہ کس شعبہ میں دلچسپی دکھا رہا ہے۔ جب اُستاد ہی سست ہوں تو بچہ کیسے چست ہوں؟ وہی دیہی علاقوں میں تو حالات مزید بدتر ہیں۔ جہاں اسکولوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہوں وہاں بھلا آپ سی سی ای سسٹم کی توقع بھی کیسے کر سکتے ہے۔

اسکولوں میں اُستاد نہ ہونے کے مسئلہ سے دوچار دیہی علاقوں میں لائق اور تربیت یافتہ ٹیچرس جب دستیاب ہی نہیں تو بچوں میں تعلیم کا شوق کون پیدا کرے؟ کون اُنہیں تعلم کی اہمیت سمجھائے، اُسکی ضرورت بتائے، اُنہیں تعلیم یافتہ بنائے۔ آج بچہ لیکچر نہیں انٹریکشن چاہتا ہے! اگر آپ جدید دور میں جدید تعلیم چاہتے ہے تو تدریس کا بھی جدید انداز چاہیے۔ ملک بھر میں جہاں پروفیشنل کورسیز کا دائزہ بڑھ رہا ہے اُسی حساب سے ٹیچرس کو بھی ٹرینڈ کرنا ہوگا تاکہ وہ آج کی تکنیکی دنیا کے حساب سے طلبہ کی رہنمائی کر سکیں۔ جب ہم تعلیم کے معیار کی بات کرتے ہیں تو کوالیفائیڈ ٹیچرس کی بھی بات کریں۔ اگر بچوں کے نصاب میں تبدیلی ہو رہی ہے تو ٹیچنگ کورس کے نصاب میں بھی تبدیلی ہونی چاہیے ورنہ اس کمی کا خمیازہ بچے ہمیشہ بھگتیں گے۔

صائمہ خان، اینکر پرسن دور درشن، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

صائمہ خان، اینکر پرسن دور درشن، دہلی

صائمہ خان دہلی سے ہیں،کئی نشریاتی اداروں میں بطور صحافی کام کر چکی ہیں، فی الحال بھارت کے قومی ٹی وی چینل ڈی ڈی نیوز کی اینکر پرسن ہیں

saima-skhan has 12 posts and counting.See all posts by saima-skhan