اذان ہوتے ہی صرف عورتیں ہی کیوں سر ڈھکتی ہیں؟


احمد نوید کی مقبول نظم ”تو کیا تمہیں میں کبھی یاد ہی نہیں آیا۔ “ میں ایک مصرع ”اذان ہوتے ہی آنچل سے سر کو ڈھکتے ہوئے۔ “ ایک بار پھر نظر سے گزرا تو احمقانہ خیالات نے نظم مکمل نہ ہو نے دی ہم نے کتاب ایک طرف رکھ کر سوچا کہ اذان ہوتے ہی آنچل سر پر ڈھک لینا رسم ہے یا احترامِ اذان ہے۔ اگر یہ احترا مِ اذان ہے تو صنفِ نازک ہی اس عمل میں آگے کیوں ہیں۔ اسکول اسمبلی میں تلاوت کے دوران بھی ساری بچیاں تلاوت کے دوران سر ڈھک لیتی ہیں۔ اسی طرح کسی بھی ادارے کے کسی ادبی، ثقافتی یا تنظیمی پروگرام کی ابتدا میں نعت یاحمد پیش کی جائے تب بھی خواتین کے ہاتھ میکانکی انداز سے اپنے سروں کو آنچل سے ڈھانپنے لگتے ہیں۔

آپ نے بھی یہ مشاہدہ کیا ہو گا کہ خاندان میں اذان کی آواز سنتے ہی بڑی بوڑھیاں اور دگر خواتین اپنے ننگے سروں کو ایسے طوفانی انداز سے ڈھاپنے کی کوشش کرتی ہیں گو یا قیامت ٹوٹ پری ہو۔ کوئی پلنگ کی چادر کھینچ کر سر پر ڈالے گی تو کوئی کتاب ہی سر پر رکھ لے گی کسی کو کچھ نہیں ملتا تو وہ برابر بیٹھی خاتون کا دوپٹہ آدھا کھینچ کر اپنے سر پر رکھ لے گی۔ خواتین کے اس حواس باختہ عمل میں مرد بھی ان کی مدد کر نے کی کوشش کرتے ہیں اور انہیں سر ڈھکنے کے لیے کوئی کپڑا وغیرہ فراہم کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ لیکن حیرت ہے کہ وہ اپنے سروں کو ڈھکنے کی ذرہ برابر کوشش نہیں کرتے۔

اسی طرح محافل میں تلاوتِ کلام پاک کے دوران بھی خواتین بڑی عقیدت سے سر پر دوپٹہ رکھنے کی رسم نبھا تی ہیں لیکن مرد انتہائی پر سکون انداز سے بغیر کسی تردد کے تلاوت، نعت یا حمد سنتے ہیں۔

اللہ اور اس کے رسول کی حمد و ثنا ہو یا رب کا اپنے بندوں کو پانچ بار فلاح کی جانب بلانا، خواتین جتنی شدو مد سے اپنے سروں کو ڈھکنے کا ہتمام کرتی ہیں، مرد وں کو کیا امر مانع ہے۔ کیا اذان کا احترام صرف عورت پر فرض ہے یایاذان ہوتے ہی آنچل سر پر رکھنا برصغیر کی ان رسموں میں سے ایک ہے، جنہیں نبھانا دیگر چیزوں کی طرح عورت ہی کی ذمہ داری اور عادت بن کے اس کے لاشعورمیں ایسے جا چپکی ہے کہ قرآنی آیات ہوں یا اذان، کانوں میں پڑتے ہی اس کے سر پر آنچل آجاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).