آؤ حضور آپ کو تاروں میں لے چلوں


بابیتا شیوداسانی پر فلمایا گیا قسمت فلم کا یہ گانا سنتے ہوئے نہ جانے کیوں میں پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے میں کھو گیا۔ بابیتا اس گانے میں بے حد حسین اور ہوش ربا لگ رہی ہیں۔ اتنی حسین کہ ان کی بات مان کر ان کے ساتھ ستاروں کے سفر کی راہ لی جا سکتی ہے۔ کچھ ایسا ہی حسین اور خوش کن رستہ ہمارے ساحرانہ شخصیت کے مالک وزیراعظم نے کرسی پر بیٹھنے سے پہلے دکھایا تھا۔ بے شمار من چلے اور من چلیاں اپنے فیورٹ قائد کا پیچھے ستاروں کے سفر پہ کوچ کرنے کو تیار ہو گئے۔

عشروں تک نسل در نسل حکمرانی کرنے والے آقا نما کرپٹ سیاسی بڑوں سے تنگ آکر بہت سارے عوام نے بالاخر کسی نئے کو آزمانے کا فیصلہ کر لیا۔ ہمارے نئے نویلے قائد نے تبدیلی کا علم اٹھایا اور سالہاسال کے مالی استحصال کے مارے عوام کو کچھ امید کی کرن دکھائی دی۔ مگر جب ستاروں کے مسافروں کا سردار تخت پوش ہوا تو ملکی معاشی معاملات میں ماضی کی تباہ کاریوں کے اثرات سے نبرد آزما ہونے میں مشکلات کا شکار ہو گیا۔ اپنے ہی بہت سے اصولوں پر سمجھوتا کرنا پڑگیا۔ نئے بادشاہ کے چاہنے والے پریشان ضرور ہوئے ہیں مگر اپنے راہنما سے بد ظن نہیں۔ شاید وہ بھی فیض صاحب کے ہم خیال ہیں کہ۔

دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

خان صاحب جوشِ خطابت میں بہت سارے ایسے وعدے بھی کر گئے جن کا وفا ہونا ناممکنات میں سے ہے مگر دلوں کو یہ تسلی ہے کہ کم از کم خان صاحب ایماندار ہیں۔ دنیا کی قدیمی تاریخ سے ہی یہ عیاں ہے جب بھی کوئی نیا حکمران آتا ہے تو اس کا مختلف طرزِ حکومت عوام الناس میں وقتی کنفیوژن ضرور پیدا کرتا ہے مگر اس کی پالیسیوں کے دور رس نتائج سامنے آنے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ اگرچہ موجودہ معاشی حالات حوصلہ شکن ہیں مگر جہاں ازلوں سے کرپٹوں کے ساتھ گذارا کیا ہے وہاں کچھ اچھا ہونے کے لیے تھوڑا اور انتظار ضروری ہے۔

لیکن اگر انتظار کے بعد بھی منزل نہیں ملتی تو یہ ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہو گا۔ کرپشن اور بد عنوانی کا شکار نو جوان نسل جس کی واحد امید تبدیلی ہے، مایوس ہو جائے گی۔ خان صاحب کچھ تو کرنا ہو گا آپ کو کہ امید بندھ جائے عوام کی۔ ستاروں کا جو سفر آپ نے شروع کروایا ہے اس آخر تک لے جانا ہو گا آپ کو۔ اگرچہ اس کے لئے ابھی بہت صبر اور انتظار درکار ہے۔

کیا گل کھلے گا دیکھیے ہے فصلِ گل تو دور

مگر ستاروں کا یہ سفر نا ممکنات میں سے نہیں ہے۔ خوشحال، پڑھے لکھے، معاشی طور پر مضبوط اور کرپشن سے پاک پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ موجودہ حکومت ایک امید ہے۔ اس امید کا زندہ رہنا بہت ضروری ہے۔ اس حکومت کو بھی گذشتہ دو حکومتوں کی طرح اپنی معیاد پوری کرنے دینی چاہیے۔ اگر تحریکِ انصاف کئیے گئے وعدوں میں سے نصف پر بھی پورا اتر آئی تو یہ صرف تحریکِ انصاف کی نہیں بلکہ پاکستان کی کامیابی ہو گی۔

بس اس جرات، بے باکی اور انصاف کا دامن نہیں چوڑنا چاہیے جو ستاروں پہ کمند ڈالنے کے لئے ضروری ہے۔ میں بار بار انتظار کی ترغیب دیتا ہوں کہ : آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک۔ اگر خدانخواستہ موجودہ حکومت بھی پچھلی حکومتوں کی طرح جاتے ہوئے قرضوں کے حجم میں اضافہ کر جاتی ہے تو پھر پاکستان کے حالات شاید کسی بہت بڑے انقلاب سے ہی سدھریں گے۔ پھر اس زخم خوردہ مملکتِ خداداد کو نہ جانے کب تک کسی اور مسیحا کی راہ دیکھنے پڑے گی۔ ایک اچھی امید کے ساتھ آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).