مشال کا انصاف ابھی ادھورا ہے


موسم گرما ہو یا سرما کی تعطیلات میں اپنی چھٹیاں گزارنے اپنے شہر سے باہر دوسرے شہر گھومنے پھرنے جاتا ہوں تاکہ ذرا سا تازہ دم ہو سکوں۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی میں اسلام آباد گیا اور ارادہ یہی تھا کہ اسلام آباد میں کچھ دن دوستوں سے ملاقات کرکے وادی کالام کا رخ کروں۔ ویسے مجھے سردی میں ٹھنڈے علاقے کی سیاحت کرنے کا بے حد شوق ہے اس لئے ہر سال دسمبر میں اسلام آباد سے مری میں نتھیا گلی اور ایوبیہ کی سیاحت لازمی کرتا ہوں اور وہاں کی برف پوش پہاڑوں کو سر کرنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ اس بار مری کے بجائے کالام کا ارادہ کیا کیوں کہ میرا ایک دوست ان دنوں اپنے گاؤں کالام میں اپنی چھٹیاں گزار رہا تھا۔

اسلام آباد میں رہ کر میں نے کچھ دوستوں سے ملاقات کی اور پھر کالام والے دوست سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اس لئے میں نے کالام جانے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے پشاور مردان جانے کا فیصلہ کیا۔ فیس بک پر جب کچھ دوستوں کو میرے اسلام آباد آنے کی خبر ملی تو ان میں سے کچھ دوست پشاور کے بھی تھے جنہوں نے پشاور اور مردان کے لئے مجھے دعوت دے رکھی تھی۔ جیسے ہی میں مردان شہر پہنچا تو ایک دوست مجھے وہاں لینے آیا اور دو دن میں اس کے ہاں ہی مہمان رہا۔ مردان شہر داخل ہوتے ہی میں نے سب سے پہلے باچا خان یونیورسٹی دیکھی اور پھر عبد الولی خان یونیورسٹی میری نظرے سے گزری تو یک دم میری آنکھوں کے سامنے مشال کا چہرہ ابھر آیا۔

مردان شہر جانے سے پہلے میں نے ارادہ یہی کیا تھا کہ وہاں سے مشال خان کے والد اقبال مشال سے ملاقات ضرور کروں گا، اسی لئے میں نے جانے سے قبل اپنے دوست کے ذرئعے مشال خان کے والد کو اپنے آمد کی خبر پہنچائی اور ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے مجھ سے ملاقات کا وقت مقرر کیا۔ پشاور سے پہلے میں مردان گیا اور وہی سے میں فورا صوابی مشال خان کے والد سے ملنے ان کے گھر کے لئے روانہ ہو گیا۔

سفر میں کافی وقت لگ چکا تھا جس کی وجہ سے میں مقررہ وقت پر پہنچ نہ سکا، البتہ شام کو پہنچا تو وہ اپنے تینوں سیکیورٹی گارڈ سمیت مجھے لینے اپنے گلی کے باہر آئے اور پھر مجھے وہ اپنے ساتھ گھر لے گئے، جہاں وہ اپنے آئے ہوئے مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں۔ مشال کیس کے گفتگو سے قبل میں نے انہیں اپنا مختصر سا تعارف پیش کیا۔ جس کے بعد مشال کے قتل پر اظہار افسوس کی۔ مشال کے والد نے گفتگو کے دوران مجھے بتایا کہ مشال کا انصاف اب بھی ادھورا ہے۔ مشال کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ میرے بیٹے کو سفاکی اور درندگی کے ساتھ قتل کیا گیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے یونیورسٹی میں موجود کرپٹ لوگوں کی نشاندہی کی اور ان کے خلاف فائل بھی تیار کر چکا تھا۔

میرا بیٹا واحد وہ طالب علم تھا جس نے طلبہ اور طالبات کے حقوق کے لئے آواز بلند کی۔ اس کا قتل ایک منصوبے کے تحت کیا گیا۔ وہ ان کرپٹ لوگوں کے لئے خطرہ بن چکا تھا وہ جانتے تھے کہ اگر مشال زندہ رہا تو انہیں ان کی بے ایمانی کی سزا ضرور ملے گی۔ اس لئے سب نے مل کر اس پر جھوٹا ناموس رسالت پر گستاخی کی افواہ پھیلائی اور یونیورسٹی کے بیشتر طلبہ کو اس کے خلاف تیار کیا اور اس کے بعد مشال کو کمرے سے نکال کر ظالمانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔

اس سنگین حالات کے دوران یونیورسٹی انتظامیہ مجرمانہ طور پر خاموش رہی۔ اس سے بھی بڑھ کر بے حسی کی انتہا یہ تھی کہ مشال کو مارنے کے دوران اور بعد میں سینکڑوں لوگ اس کی ویڈیو بناتے رہے۔ لاش پر لکڑی کے ڈنڈے مارتے ہوئے لوگوں کو کسی نے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ لاش کے کپڑے اُتارتے وقت بھی کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔

جب مشال کی لاش گھر میں لائی گئی تو مشال کی ماں نے اس پر سر رکھ رونا شروع کر دیا۔ میرے بیٹے کو اتنی بہیمانہ طریقے سے ڈنڈوں سے پیٹا گیا۔ اور پھر جب اس کی ماں اس کا ہاتھ چومنے لگی تو اس کے ہاتھ کی انگلیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھی۔ مشال کے قتل کے بعد جب جے آئی ٹی رپورٹ تیار کی گئی تو اس میں ستاون افراد کو حراست میں لیا گیا، جن میں سے 26 کو فوری رہا کر دیا گیا۔ ایک شخص جس نے مشال پر گولی چلائی اسے سزائے موت اور 4 مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ باقی 25 کو ایبٹ آباد ہائی کوٹ نے ان پر 426 کے تحت انسداد دہشت گردی کے کیس میں 4 سال کی سزا سنائی۔

مشال ہمیشہ گھر پر اپنے نبیﷺ کی سیرت اور نظامِ اسلام کی بات کرتا تھا، تو پھر میرا بیٹا کیسے اپنے آقاؐ کی گستاخی کر سکتا ہے۔ پوری دنیا کا قانون ہے کہ کسی انسان کا کتنا ہی بڑا جرم کیوں نہ ہو اسے سزا دینے کا حق صرف ریاست کو ہوتی ہے۔ جن معاشروں میں ریاست اور حکومت کی رٹ ختم ہو جاتی ہے وہاں جنگل کا قانون خودبخود جگہ بنا لیتا ہے۔ میرے بیٹے مشال کے جن 25 مجرموں کو 5 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ ایبٹ آباد عدالت نے انہیں مجھ سے اور میرے وکیل کے اجازت کے بغیر ضمانت پر رہا کر دیا ہے جبکہ یہ کسی قانون میں نہیں کہ دہشت گردی کی سزا سنائے جانے کے بعد کسی مجرم کو ضمانت پر رہائی ملتی ہو۔

اب مشال کا کیس دوسری عدالت میں منتقل کیا گیا ہے مگر یہاں بھی مجھے کوئی فیصلہ نہیں سنایا جا رہا بلکہ تاریخ اور رسوائیاں مل رہی ہیں۔ آج ہم جس عدم برداشت اور پرتشدد ذہنیت کے ماحول میں رہ رہے ہیں، یہ ماحول بنانے میں ہماری سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کی کمزوری، مصلحت اندیشی اور مفاد پرستی کا بڑا ہاتھ ہے۔ اگر ریاست اور حکومتی رٹ کا خوف ہوتا تو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں کسی کی جرات نہ ہوتی کہ وہ قانون ہاتھ میں لیتا۔

آج پاکستان میں بعض گروہ نفرت کا کاروبار کھلے عام کر رہے ہیں۔ لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور بلیک میلنگ کی جارہی ہے لیکن ریاستی ادارے ایسے عناصر کو سزا دینے سے گھبراتے ہیں۔ جب ریاست اور حکومتی ادارے بھی کسی شرپسند گروہ یا فرد پر ہاتھ ڈالنے سے گھبرائیں گے تو پھر قانون کی حکمرانی زوال پذیر ہوجائے گی۔ میرا بیٹا مشال اب واپس تو لوٹ کر نہیں آسکتا مگر ہر گھر میں جو مشال رہتا ہے میں اسے بچانا چاہتا ہوں۔ میرے پاس دولت ہے نہ طاقت ہے میں نے قانون کا راستہ اختیار کیا ہے اور میں قانون کے راستے سے انصاف چاہتا ہوں۔ میرا مقصد بدلہ لینا ہرگز نہیں ہے میں آئیندہ وقت پر ہر مشال کو بجھنے سے بچانا چاہتا ہوں۔

میں بطور راقم آپ تمام پاکستانی کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ خدارا نفرت کی آگ کو بھجانے کی کوشش کریں اور مشال کو بھجنے سے بچا لیں ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کل آپ میں اور ہماری اولاد بھی مشال خان کی طرح بجھا دیے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).