کس بیدردی سے اخبارات اردو کو مسخ کر رہے ہیں؟


ایک زمانہ تک پاکستان میں صحافت کو زبان بندی کے مسئلہ کا سامنا رہا تھا لیکن اب اردو اخبارات کو زبان کی ابتری کے سنگین مسئلہ نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ سائنس اور دوسرے علوم کی فنی اصطلاحات کے اردو میں مناسب ترجموں کی کوشش کو فوقیت دی جاتی تھی لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ یکسر مفقود ہوگیا ہے۔ انگریزی الفاظ کا ایک سیل بے کراں ہے کہ وہ اردوزبان میں اور اس کے راستہ اخبارات میں درآیا ہے۔

سائنس اور ٹیکنولوجی کی نئی اصطلاحات یعنی کمپیوٹر ’سافٹ ویر‘ ڈسک ’ماؤس‘ مانیٹر ’کی بورڈ‘ کنکشن ’ہارڈ ڈرائیو‘ براڈ بینڈ ’انٹینا‘ ٹرانسسٹر اور ایسے ہی بے شمار الفاظ اصطلاحات ہیں جن کے ترجمے کے کوئی کوشش نہیں کی گئی اور یہی مستعمل ہوگئے ہیں لیکن بدقسمتی تو یہ ہے کہ اردو اخبارات ’اردو کے اچھے اور مقبول الفاظ ترک کر کے ان کی جگہ انگریزی کے الفاظ ٹھونس رہے ہیں۔ مثلاً روبرو یا تخلیہ میں ملاقات کے لیے انگریزی کی اصطلاح، ون ٹو ون استعمال کی جا رہی ہے حالانکہ انگریزی کی صحیح اصطلاح ون آن ون ہے۔

اسی طرح تعطل اردو کا اتنا اچھا لفظ ہے اس کی جگہ سینہ تان کر ڈیڈ لاک استعمال کیا جارہا ہے۔ انتخاب کی جگہ الیکشن‘ عام انتخابات کی جگہ جنرل الیکشن ’جوہری طاقت کی جگہ اٹامک انرجی‘ کارروائی کی جگہ آپریشن ’حزب مخالف کی جگہ اپوزیشن‘ بدعنوانی کی جگہ کرپشن ’استاد کی جگہ ٹیچر‘ مجلس قایمہ کی جگہ اسڈینڈنگ کمیٹی ’جلسہ کو میٹنگ اور پارلیمان کے اجلاس کو سیشن لکھا جاتا ہے۔

سن انیس سو چھپن میں جب پاکستان کے پہلے آئین کے تحت صدر مقرر ہوا تو ہم نے امروز میں پریزیڈنٹ ہاؤس کی جگہ ایوان صدر کی اصطلاح رایج کی تھی۔ ایک عرصہ تک سب نے یہی اصطلاح استعمال کی لیکن پچھلے ایک عرصہ سے پھر اخبارات پریزیڈنٹ ہاوس کو ترجیع دے رہے ہیں نہ جانے کیوں؟ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ چھاپہ مار جنگ کو اخبارات گوریلا جنگ کیوں لکھتے ہیں۔ وہ انگریزی کے لفظ گوریلا اور گریلا میں فرق نہیں سمجھتے۔ محصول کو ڈیوٹی کہتے ہیں قرطاس ابیض اتنا اچھا لفظ ہے اب اخبارات اس کی جگہ وایٹ پیپر لکھتے ہیں اور ہوائی اڈہ کو ایرپورٹ۔

پچھلے دنوں قومی اسمبلی میں حزب مخالف کے رہنما گرفتار کر لیے گئے ان کو ایوان میں طلبی کے حکم کے لیے بے دھڑک پروڈکشن آرڈر لکھا جاتا ہے۔ چند سال ہوئے ایک اخبار میں جلی سرخی دیکھ کر بے ساختہ ہنسی آگئی۔ سرخی تھی۔ فری ہینڈ ملنے کے باوجود حکومت نے کوئی لیجسلیشن نہیں کی۔ ایک اخبار میں سرخی تھی۔ یورپی یونین کی اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی لگانے کی دھمکی دی ہے۔ اس خبر میں لکھا تھا کہ پی وی سی کی ڈمپنگ کی انویسٹی گیشن کے لیے انکوایری ٹیم بھیجی جائے اگر ہماری بیڈ لینن پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی لگائی گئی تو ہماری ایکسپورٹ متاثر ہوگی۔

اب آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ کیا یہ اردو ہے؟ کیا ہماری زبان اتنی تہی دامن اور بے بس ہے کہ اس بات کو سیدھی سادی زبان میں نہیں کہا جا سکتا۔ پنو عاقل کے دوردراز گاؤں میں یا چیچہ وطنی کے قصبہ میں ’جنوبی وزیرستان کے دور افتادہ دیہات میں اور پنچگور کے گاؤں میں اخبار پڑھنے والے اس عبارت سے کیا سمجھ پائیں گے؟

بہت سوچا کہ اس رجحان کی وجہ کیا ہے۔ کیا یہ اخبارات میں کام کرنے والے صحافیوں کی کاہلی ہے کہ یہ انگریزی سے ترجمہ کرنے اور نئی اصطلاحات وضع کرنے کا کشٹ اٹھانا نہیں چاہتے اور یوں انگریزی کے الفاظ ٹھونس دیتے ہیں یا پھر قابلیت کی کمی ہے۔

کیا وجہ اس کی یہ ہے کہ جس طرح آج کل پاکستان میں ہر شخص اپنے آپ کو پڑھا لکھا ثابت کرنے کے لئے گفتگو میں جا بجا انگریزی کے الفاظ استعمال کرتا ہے، اخبار میں کام کرنے والے بھی اپنی بقراطیت ظاہر کرنے کے لئے تحریر میں یوں انگریزی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ انگریزوں سے آزادی تو حاصل کر لی لیکن ایسا لگتا ہے کہ خود اپنے آپ اپنے اوپر مغربی ذہنی غلامی طاری کرلی۔ اس زمانہ میں جب ملک انگریزوں کا غلام تھا اردو زبان کی ایسی غلامانہ درگت نہیں بنی تھی۔

پاکستان کے قیام کے بعد امید تھی کہ اردو ’پاکستان کی علاقائی زبانوں سے مالامال ہوگی‘ اردو ان کے محاوروں ’تشبیہوں اور طرز اظہار سے فیض حاصل کرے گی لیکن انگریزی کی فصیل اردو اور ان علاقائی زبانوں کے درمیان دیوار چین کی طرح حائل ہو گئی ہے۔

ہر بات میں سازشوں پر یقین رکھنے والے بہت سے لوگ اسے اردو کے خلاف سازش تصور کرتے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اردو نے سامراجی انداز سے جس طرح علاقائی زبانوں کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی اب اسے انتقامی ردعمل کا سامنا ہے اور اسی مقصد کے لیے کوشش کی جا رہی ہے کہ اردو کی ہئیت اتنی بدل دی جائے کہ کوئی اسے اردو کہہ کر اس پر فخر نہ کر سکے۔ یا پھر خالص اردو کو لاطینی یا سنسکرت کی طرح چند حلقوں میں محدود کردیا جائے اور یوں اس کے ناطے عوام سے کٹ جائیں اور اس کے سوتے خشک ہو جائیں۔

اردو پر انگریزی مسلط کرنے کی کوشش کے حق میں ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ انگریزی بین الاقوامی رابطہ اور سائنس تجارت صنعت اور ٹیکنولوجی کی زبان ہے اور اردو سے چمٹے رہنے سے ان شعبوں میں پسماندگی کی راہ اختیار کرنا ہے۔ لیکن اس دلیل کے حامی اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ چین ’روس‘ جرمنی اور فرانس ایسے ترقی یافتہ ملکوں نے بھی آخر ترقی کی ہے اپنی زبانوں میں اپنے بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دے کر اور اپنی زبان کو زندہ رکھ کر۔

غرض موجودہ صورت حال بہت مایوس کن نظر آتی ہے۔ اردو زبان کے ابتدائی دور میں ادب اور صحافت میں ایک دوسرے کو سہارا دینے کا جو رجحان اور رویہ تھا اور اس میں جو رومانی مقصدیت تھی وہ اب عنقا ہوتی جا رہی ہے۔

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani