علیمہ خان ایشو


پہلی بات، اخلاقیات کے دائرے سے نکلنا انسان اور بالخصوص مسلمان کی تربیت میں ہرگز بھی نہیں ہے۔ کاش کہ کل مریم نواز کے خلاف جب قانونی کارروائی شروع ہوئی تھی تو اس وقت پی ٹی آئی کا عام کارکن بالعموم اور سینیئر پارٹی رہنما بالخصوص ایسی زبان استعمال نہ کرتے جس کا ذکر کرنا درست نہیں۔ جب مرحومہ کلثوم نواز صاحبہ مرضِ موت میں مبتلا تھیں تو اس وقت بھی پی ٹی آئی کی طرف سے بدتمیزی کا ایسا طوفان امڈ آیا جسے روکنا ناممکن سا ہوگیا تھا۔

آج جب علیمہ خان کے خلاف کیس ہورہا ہے تو وہی کام جو پی ٹی آئی کرتی رہی ن لیگ اور پیپلز پارٹی والے کر رہے ہیں۔ اعتراض کرنا چاہیے تنقید بھی ہو مگر خیال رہے اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔ اس وقت اور زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے جب کسی معاملے کا تعلق صنفِ نازک سے ہو۔ ایسی صورتحال میں احتیاط میں اور بھی شدت آنی چاہیے۔ کیونکہ جو بدتمیزی کا کیچڑ عورت پر اچھالا جاتا ہے وہ مرد حضرات پر نظر نہیں آتا۔ مکافاتِ عمل ضرور ہے مگر مکافاتِ عمل میں بھی مکافاتِ عمل ہوسکتا ہے۔ آج وہ تو کل تم اور کل کسی اور کی باری آئے گی۔ خیر پاکستانی قوم کا اخلاقیات سے کیا لینا دینا اپنے اصل ایشو پر بات کرتے ہیں۔

سب سے پہلے اصل ایشو کو سمجھنا ہوگا اس کے بعد دلائل کی کسوٹی پر ہم کسی نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ ایشو علیمہ خان کی جائیداد ہے اور جائیداد کا قانونی اور غیرقانونی اسٹیٹس اور اس صورت میں علیمہ خان کس حد تک عمران خان کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔ کیا علیمہ خان کا مریم نواز کے ساتھ موازنہ درست ہے بھی کہ نہیں؟

علیمہ خان ایک ایسے شخص کی بہن ہے جو اس وقت ملک کا وزیراعظم ہے۔ وزیراعظم کی بہن کے خلاف ایسی جائیداد کا سامنے آنا جو پہلے قصدا منظرِ عام پر نہیں لائی گئی۔ یا منظرِ عام پر لانے میں غلطی ہوگئی۔ یا پھر منظرِ عام پر لانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ان سب سوالوں کا اب کوئی فائدہ نہیں کیونکہ پانی سر سے گزر چکا ہے۔ اس وقت جس ایشو کو زیرِ بحث لانا ہے وہ علیمہ خان کا عمران خان کے لئے مشکلات کا سبب بننا ہے۔

آئیے دیکھتے ہیں علیمہ خان نے یہ جائیداد کیسے خریدی اور خریدنے کے لئے پیسے کہاں سے آئے؟ یہ بات تو حتمی ہے کہ علیمہ خان کبھی بھی سیاسی عہدے پر نہیں رہیں۔ مطلب وزیر، ایم پی اے یا پھر ایم این اے یا پھر ملکی ادارے وغیرہ کی سربراہ نہیں رہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ علیمہ خان نے کرپشن نہیں کی۔ اس کے بعد اگلا سوال جب علیمہ خان نے کرپشن نہیں کی تو اس کا اتنا کاروبار یا جائیداد کہاں سے آئی اور کس نے دی؟ اس سوال کا پہلا جواب تو یہ ہوگا اگرچہ جائیداد جہاں سے بھی آئی۔ جس نے بھی دی اس سے کسی کو کیامسئلہ ہے۔ ہر انسان ہر کسی کو ہر چیز کے بارے میں بتانے کا پابند نہیں ہوتا۔ ہاں اگر اتنی جائیداد ہونے کی صورت میں ٹیکس نہیں دیا پھر اعتراض بنتا ہے جو کہ درست بھی ہے۔

اگر ٹیکس نہیں دیا تو ایسی صورت میں علیمہ خان پر ایف بی آر کی طرف سے ٹیکس کے قوانین کا نفاذ ہوسکتا۔ جو اکثر ٹیکس ڈیفالٹر ڈکلیئر ہونا ہوتا ہے اگر ٹیکس ڈیفالٹر اپنا ٹیکس ادا کردے تو معاملہ ہفتوں میں نہیں دنوں میں ختم ہوجاتا ہے۔ ٹیکس کے ایسے قوانین ہیں کہ ایک ہفتے کے اندر اندر سارا معاملہ رفع دفع ہوسکتا ہے لہذا ٹیکس ڈیفالٹر کی صورت میں علیمہ خان کو کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا اور نہ ہی عمران خان کو کوئی فرق پڑسکتا ہے۔

دوسری اہم بات اگرچہ علیمہ خان خود کسی منصب پر نہیں رہیں کہ وہ کرپشن کرتیں مگر اس کا بھائی عمران خان تو منصب پر رہا ہے۔ اور علیمہ خان عمران خان کی بہن ہے۔ لہذا عمران خان نے ہی ملک کا پیسہ لوٹ کر اس کے لئے جائیداد خریدی ہوگی۔ یا وہ جائیداد ہے ہی عمران خان کی جو علیمہ خان کے نام پر ہے۔ ایسی صورت میں پہلی بات تو یہ کہ علیمہ خان عمران خان کی زیرِ سرپرستی ہے یا عمران خان کی سرپرستی سے آزاد ہے۔ اگر عمران خان کی سرپرستی میں نہیں پھر تو عمران خان کے ساتھ اس جائیداد کا لنک کرنا درست نہیں۔

مگر صورت میں لنک ہوسکتا ہے جبکہ یہ ثابت ہوجائے کہ وہ علیمہ خان کی نہیں دراصل عمران خان کی ہے۔ یا عمران خان نے ہی اسے خرید کردی ہے۔ اور ایسے پیسوں سے خرید کردی ہے جو کرپشن کے ہیں۔ مگر عمران خان نے کی کرپشن بھی ثابت کرنا ہوگی۔ بصورت دیگر آزاد حیثیت میں علیمہ خان کی ذمہ داری عمران خان پر نہیں ڈالی جاسکتی۔

ایک بات کا اس جائیداد کے ساتھ عمران خان کا لنک ہوسکتا ہے جب یہ ثابت ہوجائے کہ عمران خان نے شوکت خانم کینسر ہسپتال یا پھر نمل یونیورسٹی کے فنڈز میں خرد برد کرکے اپنی بہن کے لئے جائیداد خریدی ہے۔ جو کہ عمران خان کا ذاتی پیسہ نہیں تھا۔ لہذا عمران خان نے کرپشن کی دولت سے اپنی بہن کے لئے جائیداد خریدی اور وہ جائیداد علیمہ خان کے نام کردی جس کی وجہ سے عمران خان نا اہل ہوسکتے ہیں۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ ہر چیز ثابت کرنا ہوگی جو کہ بہت مشکل ہے۔ اگر فنڈز کی خردبرد میں سے کچھ بھی ثابت نہ ہوا تو عمران خان تو کیا علیمہ خان کو بھی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ صرف چند دنوں تک لوگوں کا طوفانِ بدتمیزی برداشت کرنا ہوگا جس کی اصل موجد بھی پی ٹی آئی ہی ہے۔

آخری بات علیمہ خان کا موازنہ مریم نواز کے ساتھ اس لیے بھی درست نہیں کہ مریم نواز، نواز شریف کی سرپرستی میں تھیں۔ اور جس وقت جائیداد خریدی گئی نواز شریف ملکی اہم منصب پر فائز تھے۔ جبکہ عمران خان کے پاس سوائے شوکت خانم کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کی چیئرمین شب کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ ممکن ہے علیمہ خان کو ٹیکس ادا کرنا پڑے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا نہ ہوسکتا ہے۔ فیصلہ وقت اور حالات پر چھوڑ دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).