تجاوزات


ہر وہ شخص جو اپنی ضرورت سے زیادہ کھاتا ہے اس کا جسم متناسب ڈیل ڈول سے بڑھ کر متواجز شکل اختیار کرنا شروع کر دیتا ہے یعنی تجاوز اختیار کر جاتا ہے۔ ہم اس خود ساختہ تجاوز کو موٹاپے کا نام دیتے ہیں اور طب انسانی اسے مہلک قرار دیتی ہے کیونکہ اس سے ایک تو انسانی استعداد کار میں کمی واقع ہوتی ہے دوسرا چربی جسم کے اطراف میں تہہ در تہہ جمنا شروع ہوجاتی ہے۔ خون کی مقدار میں کولیسٹرول لیول بڑھنے سے شریانوں میں خون کی روانی میں دقت ہوتی ہے جس سے خون کی نالیوں میں لوتھڑے جمنا شروع ہو جاتے ہیں جو دل کے افعال یا شریانوں میں کسی بھی لمحے اگر رکاوٹ ڈال دیں تو حرکت قلب بند ہونے سے موت واقع ہو سکتی ہے لہذا انسان کا ضرورت سے زیادہ کھانا انسانی جسم میں تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے جو انسان کے جسم کے لیے غیر فطری ہو کر مختلف بیماریوں کا پیش خیمہ یا پھر عمر میں کمی اور جلد موت کا باعث بنتا ہے

اسی طرح ایک وہیکل (vehicle) کی رفتار اس کی باڈی فٹنس ٹائیروں کی عمر اور پائیداری کو دیکھ کر طے کی جاتی ہے اگر اس رفتار میں اس کی فٹنس سے بڑھ کر تجاوز کیا جائے تو ٹائر پھٹ سکتا ہے جس سے وہیکل خطرناک حادثے کا شکار ہو سکتی ہے اور اس کے سوار جان سے ہاتھ دھو سکتے ہیں بالکل اسی طرح اگر ایک وہیکل پر اس کی فٹنس اور استعداد سے زیادہ سامان یا سوار لاد دیے جائیں تو بھی حادثہ یا نقصان ہو سکتا ہے یعنی یہاں بھی تجاوز مہلک ہے

اسی طرح ایک گیس سلنڈر کی بیرونی چادر کی موٹائی اس کی بناوٹ اس کے حجم کے مطابق اس کی فلنگ کی مقدار اور اس کی معیادی عمر کا تعین کرتی ہے اگر آپ اس تعین یا حجم سے تجاوز کریں تو سلنڈر پھٹ سکتا ہے جس سے کافی جانی یا مالی نقصان ہو سکتا ہے۔ یہی مثال بوائیلر پر بھی فٹ کر سکتے ہیں۔ یعنی کسی بھی میدان میں جب آپ اپنی حدود سے تجاوز کریں گے تو نتیجہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ چاہے وہ ہانڈی کا نمک ہو یا آٹے کا، مقدار سے بڑھ کر ڈالا جائے گا تو معیار ختم ہو جائے گا۔

تجاوز کسی بھی فیلڈ یا شعبے میں جب اپنی حد سے بڑھے گا تو نقصان لائے گا بربادی کرئے گا۔ اور اگر اس میں اعتدال ہوگا تو وہ متناسب ہوگا اور اپنی فطرت پہ رہے گا۔

یہی منطق یہی سائنس انسانی رویوں اور انسان کے بنائے ہوئے اداروں پر بھی لاگو ہوتی ہے اگر حکمران حکومت میں اعتدال نہیں رکھتے اپنے اختیارات میں اعتدال نہیں رکھتے وسائل کی تقسیم کرتے ہوئے اعتدال نہیں رکھتے تو پھر اس کا تسلسل انسانی فطرت کی برداشت اور مزاج سے تجاوز کر جاتا ہے اور تجاوز ایک غیر منطقی، غیر سائنسی، اور غیر فطری عمل ہے جو انتشار اور بغاوت کو جنم دیتا ہے کیونکے معاشرہ نا انصافی، جبر اور دھونس سے نہیں چل سکتا۔

جب ادارے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کریں جب قانون صرف کمزور پر لاگو ہو تو طبقاتی تفریق اپنے منطقی انجام کو پہنچنا شروع ہو جاتی ہے پھر اقلیت آئین اور قانون کے نام پر اکثریت کو زیادہ عرصے تک نہیں جکڑ سکتی کیونکے معاشرتی سائنسی منطق ہمیں یہی سیکھاتی ہے کہ جب استحصال اور جبر عوام کی برداشت سے تجاوز اختیار کرتا ہے تو پھر انقلاب آتا ہے جس طرح عام حالات میں لوگ ہر نئے ٹیکس ہر نئی پابندی کو تسلیم و رضا سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں فریاد نہیں کرتے خاموش رہتے ہیں تو اس خاموشی کو حکمران طبقہ غلط مطلب سمجھ کر نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔ اور جب یہ خاموشی ٹوٹتی ہے تو پھر اس معاشرتی تجاوزات کا خاتمہ قریب ہو جاتا ہے جو طاقتور کو زندگی دے اور غریب سے اس کا بنیادی حق روٹی اور گھر بھی چھین لے تو پھر شیلٹر ہوم میں عوام نہیں رہتے اس شیلٹر ہوم میں حکمرانوں کو رکھا جاتا ہے تاکہ لوگ نسلوں کی محرومیوں کا انتقام کہیں ان سے نہ لے لیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).