اپنا اپنا قبلہ


ہمیشہ سے یہ انسان کی فطرت رہی ہے کہ وہ اپنی بات، اپنے کام کی تائید چاہتا ہے۔ اگر کسی محفل میں ہم کوئی بات کریں تو اگر لوگ ہماری بات کی تائید کریں تو ہمیں وہ لوگ بڑے دانش مند اور مہذب لگیں گے۔ لیکن اگر وہ ہماری بات پر اعتراض کریں تو ہم کہیں گے کہ لوگوں کی تو عادت ہے ہر چیز سے کیڑے نکالنے کی۔ جب ہم کوئی کام کرنے لگتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ جس طرح ہم کر رہے ہیں، یہ سو فی صد درست ہے۔ اس میں کوئی خامی نہیں ہے۔ یہ ہی سوچ دوسرے لوگوں کی ہوتی ہے۔ جب دوسرے ہمارے کام کو دیکھتے ہیں تو وہ بھی ارسطو بننے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور پوری دانش مندی سے ہمارے کام کو بالکل غلط قرار دے دیتے ہیں۔ اور جو ہمت اور حوصلہ کام کرنے کے لیے ہم نے اپنے اندر پیدا کیا ہوتا ہے وہ ایک دم سے ماند پڑ جاتا ہے۔

دوسرے لوگوں کو بھی یہ ہی لگتا ہے کہ جو مشورہ وہ دے رہے ہیں، جو طریقہ وہ بتا رہے ہیں وہ ہی درست ہے۔ لوگ اپنی بات سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ اگر ہم اپنی ضد اور انا سے ہٹ کر دوسروں کی بات پر بھی ٹھنڈے دماغ سے سوچیں تو یقیناً ہمارے بہت سے مسائل کا حل نکل آئے گا۔ لیکن یہاں تو بات ہی کوئی اور ہے۔ ہر کسی کو لگتا ہے کہ وہ عقل مندی کے آخری مقام پر فائز ہے اور اگر لوگ اس کی بات نہیں مانیں گے تو ان سے بڑا بے وقوف اس دنیا میں کوئی نہیں۔ اگر کوئی ہماری بات مان لیتا ہے۔ ہماری بات کی تائید کرتا ہے تو بے اختیار اس کا منہ چومنے کو جی چاہتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ہماری بات رد کرتا ہے یا ہماری بات پر کوئی اعتراض کرتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ بندہ اس کے جبڑے توڑ دے۔

ہم میں سے بہت سے لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ صرف ’ہاں‘ سننا پسند کرتے ہیں۔ اور اس کام کے لیے انہوں نے بعض اوقات تنخواہ دار رکھے ہوتے ہیں۔ اب تنخواہ دار کو چاہیے کہ چاہے اسے بڑے میاں کی بات پسند آئے یا نا آئے، وہ سر جھکا کے کہے جی حضور، جی حضور آپ نے بجا فرمایا۔ اگر وہ اعتراض کرے گا تو مالک اسے نوکری سے نکال دے گا۔ کیوں کہ ہم اپنی بات کی تائید چاہتے ہیں درستی نہیں۔ کوئی ہمیں ٹوکے تو جی چاہتا ہے کہ طفیل ٹوکے سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں۔ اکثر اوقات ہمیں جو لوگ اچھے لگتے ہیں یا جن سے ہمارے تعلقات ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں اچھے لگتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی ہماری طرح انہیں چاہیں انہیں مانیں اور ان کی تائید کریں

ویسے بھی انسان بڑا خود غرض واقعہوا ہے۔ جب وہ کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کی برائیاں بھول جاتا ہے اور جبوہ کسی سے نفرت کرتا ہے تو اس کیاچھائیاں بھول جاتا ہے۔ وطن سے محبت تو الگ بات ہے وطن سے محبت تو سب کو کرنی چاہیے۔ اکثر لوگ ایسے بھی ہیں جو پاکستان کو برا بھلا کہ رہے ہوتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے۔ وہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم نے اپنے رویے، اپنے کردار، اپنی ذات سے پاکستان کوکتنا فائدہ پہنچایا ہے اکثر اوقات ہماریغلیظ حرکتوں کی وجہ سے پاکستان عالمی سطح پر بدنام ہو کر رہ جاتا ہے۔

آج کل لوگ یورپ جانے کے بہت خواہش مند ہیں کہ وہاں سب لوگ بڑے خوش حال ہیں۔ اور اگر ہم بھی وہاں جائیں گے تو ہم بھی نہال ہو جائیں گے۔ اور یورپ جانے کے لیے وہ غیر قانونی طریقے اپناتے ہیں۔ اور جب پکڑے جاتے ہیں تو پاکستان کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ اور سچے اور ایماندار پاکستانیوں کے لیے بھی مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیں بہت کچھ دیا۔ ہم نے پاکستان کی دھرتی پر جنم لیا، ہمارا بچپن یہاں گزرا ہماری جوانی پاکستان میں گزرتی ہے۔ ہماری پوری زندگی پاکستان میں گزرتی ہے۔ پاکستان نے ہمیں پہچان دی ہماری عزتوں اور جانوں کی حفاظت کی، ہماری آزادی کو محفوظ رکھا لیکن ہم نے ہر ممکن حد تک پاکستان کو نقصان پہنچایا۔

بات اور طرف نکل گئی۔ میں دراصل باتیہ کرنا چاہتا تھا کہ لوگ اتنی پاکستان سے محبت نہیں کرتے جتنی اپنے صوبے سے اپنی سیاسی جماعت سے اور سب سے بڑھ کر اپنے مفاد سے کرتے ہیں۔ ہم اپنی انا کی تسکین چاہتے ہیں۔ کسی سیاسی لیڈر کی تو بات اور ہے یہاں لوگ ایک خدا اور آخری رسولؐ پر متفق نہیں ہیں کسی عام آدمی پر متفق کیسے ہوں گے لیکن پھر بھی ہمیں لگتاہے کہ جس راہنما کی ہم پیروی کر رہے ہیں وہ سچا اور محب وطن ہے۔ باقی سب غدار اور چور لٹیرے ہیں۔ سب نے اپنا اپنا قبلہ بنایا ہوا ہے اور اپنی انا کی نماز پڑھ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).