نہ جانے کیوں؟


کُچھ دن پہلے کی بات ہے کہ وہ اور اُس کے سب دوست آگ کے الاؤ کے گرد بیٹھے تھے اور سب اپنے اپنے خیالوں اور خوابوں سے اُسے مزید بھڑکا رہے تھے اور جب یہ سلسلہ چلتے چلتے اُس تک پُہنچا اور اُس سے فرمائش کی گئی کہ وہ بھی اپنے دل کی باتوں کو کہہ ڈالے تو اُس نے سب کی طرف نظر دوڑائی اور پھر اُس کی نظریں الاؤ پر جم گئیں۔ اپنی نظریں وہیں ساکت کر کے اُس نے بولنا شروع کیا، ”میرے خیالات نہیں ہیں کُچھ سوالات ہیں تُم سب سے، خود سے اور خُدا سے بھی۔

اُن سوالوں کے جواب شاید کوئی نہیں جانتا اور اگر کوئی جانتا بھی ہے تو مُجھے نہیں بتاتا نہ جانے کیوں؟ دیکھو ابھی سردیوں کا موسم ہے، آنے والا وقت بہار کا ہے مگر میرے دل میں مُسلسل ایک اُجڑی خزاں کا ڈیرہ ہے نہ جانے کیوں؟ نیا سال پھر سے چڑھ چُکا ہے، پھر سے لوگو ں نے نئی اُمیدیں باندھ لیں ہیں پر میرے پاؤں ابھی تک ماضی کی رسیوں میں اُلجھے ہوئے ہیں نہ جانے کیوں؟ پہاڑوں پر برف جم چُکی ہے، میدان بھی دُھند کی لپیٹ میں ہیں لیکن میرے جذبات کی حدت سوا نیزے پر ہے نہ جانے کیوں؟

دُنیا کائنات کے اندھیروں کو تسخیر کر رہی ہے، انسان تہذیب کے نئے زاویوں کو اپنا چُکے ہیں مگر میں اب تک اپنی قلبی ترجیحات کو ہی متعین نہیں کر پا رہا نہ جانے کیوں؟ دُنیا کی افواج ففتھ جنریشن وار فیئر میں داخل ہوچکیں ہیں، سائنسدان کامل ڈی این اے بنا رہے ہیں اور میں اپنے ہی ذہن کی یکسوئی حاصل کرنے میں ناکام ہوں نہ جانے کیوں؟ لوگ دولت کے انبار لگا رہے ہیں، دُنیا نہایت تیزی سے اپنی ہی تباہی کے اسباب جمع کر رہی ہے مگر میں اپنے منتشر خیالات کو بھی اکٹھا رکھنے میں ناکام ہوں نہ جانے کیوں؟ ”۔

اُس کو اپنے الفاظ گڈمڈ ہوتے محسوس ہو رہے تھے پھر بھی اُس نے آج خاموش ہوجانا مُناسب نہ سمجھا اور بولتا رہا، ”میں خود کو پت جھڑ کے موسم میں درخت سے جُدا ہونے والا پہلا پتہ سمجھتا ہوں، جو ہوا کے پہلے جھونکے کے ساتھ ہی اپنی شاخ سے ٹوٹ کر الگ ہوجاتا ہے۔ جتنی کوشش کرتا ہوں کہ واپس اپنی شاخ سے دوبارہ جُڑ جاؤں اُتنا ہوا مجھے دور لے جاتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ کم از کم دوسرے خزاں رسیدہ پتوں کے ڈھیر میں ہی جا گروں اُتنا ہی ہوا مُجھے اکیلا فضا میں اُچھال دیتی ہے، نہ جانے کیوں؟

کبھی میں خود کوپہاڑ پر جمی برف کے اُس ذرے جیسا محسوس کرتا ہوں جو سورج کی گرمی پانے کہ بعد پگھل کرندی میں اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے مگر اُس آغاز میں ہی وہ اُچھل کر کنارے پڑے پتھر پر آن گرتا ہے، ۔ میں ندی کا ہی حصہ رہنا چاہتا ہوں، میں دریا میں اُترنا چاہتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ میں بھی سُمندر کی لہر بنوں پر ہر بار میں پتھر وں میں جذب ہو کر رہ جاتا ہوں، نہ جانے کیوں؟

اُس نے پاس پڑی لکڑی اُٹھائی اور اُس سے راکھ کو کُریدتے ہوئے اپنی بات کو جاری رکھا، ”میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کاش میں پروانہ ہوتا۔ اپنی مرضی سے بار بار لو کی طرف جاتا، میرے پر جلتے تو اور شوق سے آگے بڑھتا، پروں کے بغیر بھی روشنی کے قُرب کا شوق کم نہ ہوتا اور اپنے اسی اندھے شوق میں بھسم ہوجاتا مگر جب بھی آنکھ کُھلتی ہے تو میں خود کو مچھلی گھر میں قید پاتا ہوں، نہ جانے کیوں؟ “۔ اُس کے لہجے کی کپکپاہٹ اب واضح تھی پر آنکھیں زمین پر ٹکے ہونے کے باعث اُسکی آنکھوں میں موجود خلا اب بھی دوسروں کی نظروں سے اوجھل تھا۔

جذبات میں تھوڑا ٹھہراؤ آنے کے بعد وہ پھر بولا، ”میں ایسی لپکتی آگ نہیں بننا چاہتا پر میں انگارہ بننا چاہتا ہوں، میں دوسروں کو جلانا نہیں چاہتا مگر اپنی حرارت ضرور محسوس کروانا چاہتا ہوں، میں راکھ میں دب کر بھی جلتے سُلگتے رہنا چاہتا ہوں مگر ہر بار میں گیلی لکڑی کی طرح دھواں دیتا رہ جاتا ہوں، نہ جانے کیوں؟ َ“۔

اب اُس کے دماغ میں الفاظ واضح ہونے لگے تھے پر اُسے لکڑیوں کی کمی پریشان کر رہی تھی، اُسے لکڑیوں کے ختم ہونے سے پہلے اپنی بات مُکمل کرنی تھی۔ اسی کشمکش میں وہ پھر سے بولا، ”میری خواہشات شاید عام لوگوں سے مختلف ہیں۔ لوگ کعبہ بننا چاہتے ہیں، میں مقام ابراہیم ہونے کو متمنی ہوں، لوگ چاہتے ہیں اُن کے لئے من و سلویٰ اُترے مگر میں اسمعیٰل کے لئے دُنبہ بن کر اُترنا چاہتا ہوں۔ لوگ سکندر بننا چاہتے ہیں پر میں پورس کی جگہ لینے کا خواہشمند، لوگوں کو عیسیٰ کا دست شفا چاہیے مگر میراصلیب پر لٹک کر ہاتھوں میں میخیں ٹُھکوانے کو دل کرتا ہے۔ لوگ ہوا میں اُڑنے کے سپنے دیکھتے ہیں، مُجھے زمین پر بیٹھنے سے تسکین ہوتی ہے، لوگوں کو اپنے گرد مجمع چاہیے اور مُجھے اپنی ذات سے بھی ڈر لگتا ہے، نہ جانے کیوں؟ “۔

ابھی وہ اپنی بات جاری رکھنا چاہتا تھا مگر ایک دوست نے اُسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ یار تو عجیب آدمی ہے ہم کب سے تیری بات سُننے کے لئے بیٹھے ہیں اور تو ہے کہ خاموش آگ کو گھورے جا رہا ہے، اُس نے حیرت سے نظریں اُٹھا ئیں اور بے یقینی میں سب کے چہروں کو دیکھا اور سپاٹ شکلوں کو دیکھ اُس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اُس نے اپنے دل کا سارا غبار بیان کردیا اور کسی کو کُچھ سُنائی تک نہیں دیا، نہ جانے کیوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).