یہ جو پنڈی سے محبت ہے


تاہم میں نے ہینڈ کیری میں سوئیٹرز اوپر کی جانب ہی رکھے تھے اورٹرین میں ہی ایک انٹی کے کہنے پر ایک سوئیٹر احتیاطی طور پر باہر نکل لیا تھا۔ پنڈی پہنچ کر احساس ہوا کہ سوئیڑ کو ہاتھ پر نہیں بلکہ جسم پر ڈال لینا چاہیے، لہذا احساس کو عملی جامہ پہنایا اور انٹی کے ساتھ ان کے گھر کی راہ لی۔ انعم کا گھر اسٹیشن سے بذریعہ ٹیکسی پندرہ منٹ کی مسافت پر ہے۔ گھر پہنچ کر انعم کی پھوپھو اور بابا سے ملاقات ہوئی وہ دونوں بھی بہت محبت سے ملے۔ کچھ دیر بعد انعم کی آفس سے واپسی ہوئی وہ بھی یادگار تھی۔ ہم پہلی بار ملے تھے۔ انعم واقعی ایکم مخلص دوست اور اچھی لڑکی ہے۔ میں نے ان کے گھر ایک ماہ قیام کیا۔ اگرچہ چند روز بعد قیام کے لئے ایک ہاسٹل کا پتہ چلا تاہم انٹی اور انعم نے جانے نہ دیا۔ ان کی محبت کا کوئی مول نہیں ہے۔

ہم کراچی والوں کو سرکار کی جانب سے ٹرانسپوٹ کی سہولت مہیسر نہیں ہے اگرچہ صوبائی وزیر ٹرانسپوٹ ہر دور میں رہا ہے مگر جناب پیپلزپارٹی کا دعوی روٹی، کپڑا اور مکان کا ہے ٹرانسپوٹ کا تو نہیں ہے اور جب وہ پچھلے پچاس سالوں سے اپنے ووٹرز کو اپنے منشور کے حساب سے نہ روٹی دے سکے ہیں نہ پانی نہ ہی مکان تو ایسے میں ان سے ٹرانسپوٹ کی توقع کرنا دیوانے کے خواب کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ ان دنوں ناصر شاہ صاحب وزیر ٹرانسپوٹ تھے اور ہر تین ماہ بعد کراچی کے عوام کو گرین بسیں، سرکلر ٹرین اور پنجاب کی میٹرو اور اورنج لائن کی طرح گرین لائن کا خواب دیکھاتے تھے جو آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ہے، خیر مردہ پرست معاشرے میں یہ ہی ہوتا ہے۔

جہاں مردوں کو زندہ تصور کیا جائے وہاں زندہ لوگ مردوں سے بدتر زندگی بسر کرتے ہیں۔ سو بھئی سندھ والے بنا سہولت کے زندگی گزر رہے ہیں جب تک گزر نہیں جاتے۔ ویسے یہ بات صوبائی حکومت کو شرم دلانے کے لئے لکھی ہے مگر کیا فائدہ شرم آنے کے لئے صاحب غیرت ہونا ضروری ہے۔ بہرحال، کراچی کی ٹوٹی بسیوں میں سفر کرنے والی نے جب پنڈی کی میٹرو میں سفر کیا تو لب بے ساختہ کہہ پڑے، بہترین سروس، لاجواب ٹرمینلز، واہ میٹرو۔

مزے کی بات یہ کہ صرف پینتالیس منٹ میں پنڈی صدر سے اسلام آباد کا فیض آباد آجاتا تھا۔ میرے لئے یہ بڑے مزے کی بات تھی، جبکہ کراچی میں ایسا کہاں ممکن ہے۔ ہم توگھنٹوں ٹریفک میں پھنسے ٹوٹی بسوں میں خوار ہورہے ہوتے ہیں، مگرجیسا کے پہلے کہہ چکی ہوں ہماری صوبائی حکومت غیرت پروف ہے۔

پنڈی صدر کی مارکیٹ کراچی صدر کے بہ نسبت بہت مہنگی ہے مگر صاف سھتری ہے۔ یہ مہنگائی گارمنٹس، لیڈیز بیگز اور شوز تک ہے البتہ پھل، سبزی، دودھ، دہی اور چھوٹے، بڑے کا گوشت مجھے کراچی کے بہ نسبت مناسب لگا۔ ایک اور دلچسپ بات بتاتی چلوں، وہاں کے بعض دکانداروں نے مجھے کراچی کا ہونے کی وجہ سے مزید مہنگی جبکہ بعض نے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آدھی قیمت پر چیزوں کی خریداری یقینی بنائی۔

بینک روڈ پر واقع شاپنگ سنٹرز کے لوازمات آج بھی میری الماری کی زینت بنے ہیں۔

پنڈی کینٹ پولیس اسٹیشن سے لے کر میٹرو اسٹیشن تک صبح و شام کی واک کا بھی اپنا الگ ہی مزہ تھا۔ سرد صبح، خنک دن، ٹھنڈی شام اور ٹھٹرتی رات، یعنی کہ میں نے سرد موسم کے سارے رنگوں کو پنڈی میں انجوائے کیا۔ تہذیب بیکری کے آئٹمز کا ذائقہ آج بھی زبان پر تازہ ہے۔ کراچی آئس کریم کا چاکلیٹ فیلور کو کیسے بھولا جاسکتا ہے۔ اکثرمیں اورمریم رات کے کھانے کے بعد یہ شغل کیا کرتے تھے۔ پنڈی فوڈ اسٹرائیٹ کی کڑاہی کی مہک آج بھی یاد آتی ہے اور اگرسیور کی پلاؤ نہیں کھائی تو پنڈی میں کیا کھایا؟

یہاں تو ایسے رش لگا ہوتا ہے کہ جیسے فری میں پارسل دستیاب ہیں۔ پنڈی کینٹ کی فوڈ اسٹرائیٹ اور ہلال روڈ کی پر سکون سیاہ تار کول کی سٹرک میرا ایک اچھا ماضی ہے۔ اگرچہ میں ایک پروجیکٹ کے سلسلے میں وہاں گئی تھی تاہم امی جان کے فکرات کی بدولت مجھے کام ادھورا چھوڑ کر آنا پڑا۔ یہاں ایک بات لازمی کہنا چاہونگی۔ والدین کو بالخصوص ماں کو اپنی اولاد کو سمجھتے ہوئے اس پر قابل برداشت پابندیاں عائد کرنی چاہئیں ورنہ اگر ماں اور اولاد کے درمیان خلا آجائے تو یہ نہ ماں کے لئے مناسب نہ ہی اولاد کے لئے بہتر۔

کام ادھورا رہ جانے کا غم لئے میری کراچی واپسی ہوئی۔ انعم کو بھی اس بات پر مجھ پر غصہ تھا مگربہرحال وہ اچھی لڑکی ہے، ہم آج بھی دوست ہیں۔

دسمبر 2017 تا جنوری 2018 تک ہم نیوز نیٹ ورک کی جانب سے اسلام آباد جا نا ہوا۔ وہاں ایک ماہ کی میڈیا ٹرینگ لی۔ اب کی بار میں اکیلی نہ تھی بلکہ دس، بارہ افراد پر مشتمل گروپ اسلام آباد گیا تھا۔ سب ہی بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک ماہ تک زیر تعلیم ہوئے تھے۔ یہ بھی یادگار لمحات تھے۔ جس کا تذکرہ پھر کبھی سہی البتہ یہ ضرور بتاتی چلوں، اس دوران بھی میں تین بار پنڈی گی اور ہر بار بہت اچھا محسوس کیا۔
میں ہوں تو کراچی کی اور میرا شہر سب سے پیارا ہے مگر یہ جو پنڈی سے محبت ہے، چلیں یہ تذکرہ بھی پھر کبھی سہی۔ بس دعاؤں میں یاد رکھیں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2