18 ویں ترمیم کیوں کھٹک رہی ہے؟


1929ء میں مسلم لیگ کے 14 نکات میں درج ذیل دو نکات بھی شامل تھے: اول مستقبل کے آئین کی طرز وفاقی ہونی چاہیے جس میں باقی ماندہ اختیارات صوبوں کے پاس ہوں دوم یہ کہ تمام صوبوں کو یکساں خود مختاری دی جائے گی۔

’’مسلمانوں کے لیے اُس وقت تک کوئی آئینی منصوبہ قابل عمل یا قابل قبول نہیں ہوگا، جب تک کہ جغرافیائی اعتبار سے جڑی ہوئی اکائیوں کی حد بندی ایسے علاقوں کی حیثیت سے نہیں کی جاتی، جو اُس علاقائی رد وبدل کے ساتھ جو ضروری ہو گا،وجود میں آئیں گے اور یہ کہ اُن علاقوں، جن میں مسلمان عددی اعتبار سے اکثریت میں ہیں، جیسا کہ شمال مغربی اور ہندوستان کے مشرقی علاقے،کو آزاد ریاستوں کی تشکیل کے لیے آپس میں ملایا جائے جن میں تشکیلی اکائیاں خود مختار اور اپنی مرضی کی مالک ہوں۔‘‘ (قرار داد لاہور،1940 )

23 جون، 1947 کواُس وقت کے انڈین آرمی چیف، سر آر ایم لاک ہارٹ نے ایک ملاقات میں جب جناح صاحب سے مسلم لیگ کی مستقبل کی پالیسیوں کے بارے میں پوچھا تو جناح صاحب نے انھیں بتایا کہ ’’ماسوائے دفاع، خارجہ امور اور مواصلات یا ایک دو دوسرے ایسے معاملات کے جو تمام صوبوں کے لیے یکساں ہوں گے، جنھیں مرکز کنٹرول کرے گا، صوبوں کو مکمل خود مختاری حاصل ہو گی۔‘‘ (ماخوذ از ’’پاکستان، خرابی اور اس کے اثرات‘‘ )

مگر اس سے قطع نظر، قیادت نے ان بنیادی مقاصد سے بے وفائی کی اور اُن صوبوں کو خود مختاری دینے سے انکارکیا، جو پاکستان کا حصہ بنے، تاہم53 سال بعد ملک نے18 ویں ترمیم منظورکرکے آئینی طور پر اُن مقاصد کی جانب پیش رفت کی جن کا وعدہ کیا گیا تھا اور اسے جمہوری قوتوں کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا گیا، مگر ایک بار پھر ایک مضبوط لابی سامنے آئی ہے، جو اس سمت میں کی جانے والی پیش رفت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔

اصل میں، مضبوط مرکزکی حامی لابیوں کو نیشنل divisible پُول میں وفاقی حکومت کے حصے کی کٹوتی کرنے پر زیادہ غصہ ہے جو ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں 50 فیصد سے کم کر کے 42.5 فیصد کردیا گیا۔

18 ویں ترمیم میں، آئین کے آرٹیکل 160(3) (a) میں یہ صراحت کرتے ہوئے صوبوں کے حصوں کو تحفظ دیا گیا ہے کہ’’ نیشنل فنانس کمیشن کے ہر ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ، اُس حصے سے کم نہیں ہوگا جو صوبوں کو پچھلے ایوارڈ میں دیا گیا تھا۔‘‘

18 ویں ترمیم کے ناقدین کو یہ شق کھٹکتی ہے کیونکہ یہ وفاقی حکومت کے لیے نیشنلdivisible  پول میں وفاقی حکومت کا حصہ بڑھانے کی اجازت نہیں دیتی۔ یہ لوگ خود کو پابند محسوس کر رہے ہیں کیونکہ اس رقم کا زیادہ تر حصہ ایک ٹریلین روپے کے دفاعی بجٹ کی مد میں جاتا تھا۔

دوسرا بڑا حصہ debt سروسنگ پر خرچ ہوتا ہے۔ یہ رقم 1.6 ٹریلین روپے سے زیادہ (وفاقی بجٹ کے30 فیصد سے متجاوز) ہے،اور توقع ہے کہ رواں سال اس میں اضافہ ہو گا۔

18 ویں ترمیم میں صوبوں کے حصے کو دیے جانے والے تحفظ سے چھیڑچھاڑ کی کوشش کے بجائے مرکز کے لیے اپنا حصہ بڑھانے کا واحد راستہ شاید مزید محاصل اکٹھے کرنا ہے۔

18 ویں ترمیم پر لفظی ومعنوی طور پر عمل درآمد کرنے کے بارے میں صوبوں کی اپنی شکایات ہیں۔مثال کے طور پر،آرٹیکل 158 میں کہا گیا ہے کہ تیل اورگیس پیدا کرنے والے صوبوں کا ان کے استعمال پر پہلا حق ہے مگر ایسا نہیں ہو رہا، ورنہ بلوچستان اور سندھ، جن کے پاس قدرتی گیس کے وسیع ذخائر ہیں، ان وسائل سے زیادہ حصے کے لیے مطالبہ نہ کر رہے ہوتے۔

صوبے، مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس، جیسا کہ آئین میں کہا گیا ہے، نہ بلانے پر وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کا کوئی سیکریٹریٹ موجود نہیں ہے، جو ایسے معاملات پر عمل درآمد کا جائزہ لے سکے جن کا فیصلہ اس موقر فورم پر، جس میں چاروں وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم کی نمایندگی ہے، کیا جاتا ہے۔

صوبوں کو یہ بھی گلہ ہے کہ قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس نہیں بلایا جاتا جس میں صوبے پبلک سیکٹر کے منصوبوں کے بارے میں اپنی رائے دے سکیں۔

اب یہ معاملہ اٹھایا گیا ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی تعلیمی نصاب ہونا چاہیے۔ 18 ویں ترمیم میں یہ ذمے داری صوبوں کو سونپ دی گئی تھی، مگر یکساں نصاب تعلیم کے چیمپئنز کو نیچرل سائنسزکے نصاب کے بارے میں کوئی فکر نہیں ہے کیونکہ یہ ہر صوبے میں دوسرے سے مختلف نہیں ہو سکتا، انھیں سب سے زیادہ فکر مطالعہ پاکستان کے مضمون کی ہے جو تمام اسکولوں اور کالجوں میں لازمی ہے۔ اس میں بددیانتی سے لکھی ہوئی پاکستان کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے اور جس میں پاکستان کی جمہوری قوتوں کی طویل سیاسی جدوجہد کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

مثال کے طور پر، پاکستان کے لیے ایک بڑا دھچکا اُس کے مشرقی بازو کی علیحدگی تھا، جس کے ساتھ مغربی پاکستان کی طرف سے24 سال تک ایک نو آبادی کی طرح سلوک روا رکھا گیا۔ مطالعہ پاکستان کی مقررکردہ کتابوں میں اس پورے موضوع کو محض دو پیرا گراف میں نمٹا دیا گیا ہے۔

تعجب ہے کہ 18 ویں ترمیم کے یہ فاضل نقاد اب کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کی جانب سے یہ ترمیم جلد بازی میں منظور کی گئی۔ انھیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ آئین میں ترمیم کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کے نو ماہ میں 200 اجلاس ہوئے۔ اخبارات میں ایک اشتہار کے ذریعے رائے عامہ معلوم کی گئی اور موقع دیا گیا کہ اگر وہ آئین میں کسی ترمیم کو مناسب سمجھتے ہیں تو تجویز کریں۔ اس کے علاوہ بار کونسلوں سے بھی درخواست کی گئی کہ وہ آئین میں ترامیم تجویز کریں۔ اس کوشش کے نتیجے میں عوام اور بارکونسلوں کی طرف سے 900 سے زیادہ ترامیم تجویز کی گئیں۔

پارلیمانی کمیٹی 16 ارکان پر مشتمل تھی جو پارلیمنٹ میں تمام جماعتوں کی نمایندگی کر رہے تھے، پھر ان جماعتوں سے کہا گیا کہ وہ18 ویں ترمیم کے مجوزہ مسودے پر اپنی اپنی پارٹی کی منظوری لیں۔چنانچہ، اگر یہ فاضل ناقدین یہ کہتے ہیں کہ اسے محض دو دن کے اندر عجلت میں پارلیمنٹ سے منظورکرایا گیا تو یا تو وہ لاعلم ہیں یا پھر وہ پوشیدہ مفادات کی خدمت کر رہے ہیں۔

ناقدین کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ پاکستان میں آئین سازی، صوبائی خود مختاری کے معاملے کے ساتھ الجھی رہی ہے۔ انھیں اس پر تنقید کے بجائے اس پر عمل درآمد پر زور دینا چاہیے تاکہ وفاق مضبوط ہو۔

(بشکریہ روز نامہ ایکسپریس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).