پاکی داماں کی حکایت بڑھائی کیوں؟


ریاست خداداد میں کار مملکت کو شفاف رکھنے کے واسطے بہت سے ادارے ہیں جن میں سے ایک نیب بھی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک صرف اپوزیشن جماعتوں، یا ایک خاص نقطہ نظر رکھنے والے لوگوں کو ہی نیب سے شکایت تھی۔ اس وقت موجودہ حکومتی بزر جمہران اس کی شان میں قلابے ملا رہے تھے اور جب بھی کوئی اپوزیشن رہنما نیب کی حراست میں آتا خوب بغلیں بجتی۔ بھنگڑے لگتے، حکومتی ترجمانوں کی طرف سے باوجودیکہ نیب آزاد اور خود مختار ادارہ ہے نوید سنائی جاتی آئندہ فلاں فلاں شخص کی باری آنے والی ہے۔

طرفہ تماشا ہے وہی زبانیں اور کردار جو نیب اور چیئرمین نیب کی مدح سرائی میں مصروف تھے، اب وہ ایسے دہائیاں دے رہے ہیں گویا پابجولاں انہیں انگاروں پر چھوڑ دیا ہو۔ سمجھا بجھا، چیخ چلا کر تھک گئے، احتساب کے نام پر رچایا جانے والا یہ ڈرامہ درست نہیں۔ بلکہ اس طریقہ کار سے مجرموں کو مزید تقویت ملے گی اور وہ پہلے سے توانا ہو کر ابھریں گے۔ مذکورہ سوچ رکھنے والوں کو چوروں اور ڈاکوؤں کا حمایتی مشہور کیا جاتا اور زیادہ تکرار کرنے والوں پر لفافہ پکڑنے اور ملک دشمنی کا لیبل لگتے بھی دیر نہ لگتی۔ وہی فواد چوہدری جو نیب کی ترجمانی بھی رضاکارانہ انجام دے رہے تھے، اب ان کا فرمان ہے ”سرکاری ہیلی کاپٹر کے نا جائز استعمال کا کیس“ چلا کر نیب وزیراعظم پاکستان کی توہین کر رہا ہے۔

فقیر کے ناقص ذہن میں یہ بیان سننے کے بعد چند سوال ابھر رہے ہیں۔ کیا احتساب کا تصور عصر حاضر کی ایجاد ہے؟ کیا زمانہ قدیم میں احتساب کا کوئی تصور موجود نہیں تھا؟ کیا احتساب صرف انسانی معاشرت اور دنیاوی زندگی کے لیے مخصوص ہے؟ کیا قوانین فطرت میں احتساب کی کوئی نظیر میسر نہیں؟ کیا احتساب صرف رموز مملکت کو شفاف رکھنے کا نام ہے؟ کیا احتساب کا دائرہ محض ریاستی امور تک محدود قرار دیا جاسکتا ہے؟ احتساب کا دائرہ کسی فرد، گروہ یا ادارے کے لیے مخصوص ہوسکتا ہے؟

کسی بھی فرد، ادارے اور گروہ کو احتساب سے فرار یا استثنی اس لفظ کے معانی و مقاصد کے سامنے سوالیہ نشان نہیں؟ احتساب کی لپیٹ میں آئے افراد کا اسے انتقام قرار دینا درست ہے؟ احتسابی عمل کے نفاذ کے ذمہ دار ہی اپنے محاسبے اور جواب دہی سے انکاری ہوں تو دیگر پر اس کا اطلاق سہل ہوسکتا ہے؟ کیا طاقت کے استعمال یا کسی دوسرے طریق، یک طرفہ نفاذ سے احتساب کا مقصد حاصل کرنا ممکن ہے؟ کیا احتساب صرف انسانی ذہن کی کارستانی ہے؟

در حقیقت احتساب ایک آفاقی نظریے اور قانون فطرت کا نام ہے۔ یہ نظریہ وجود کائنات سے پیشتر بھی کسی نہ کسی جگہ موجودگی رکھتا تھا۔ بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ احتساب ہی کائنات کے وجود کی اصل وجہ ہے۔ یہی وہ جواز تھا جس کی بدولت اس کارخانہ قدرت کی ضرورت محسوس ہوئی۔ احتساب کی بنیاد پر جزا اور سزا کا تصور نہ ہوتا تو شاید یہ کائنات وجود میں نہ آتی اور یہ بھی پیش نظر رہے وجود میں آنے کے بعد انسانی معاشرتی اور سماجی نظام کو درست چلانے کے لیے جوابدہی کا خوف لازم تھا۔

جوابدہی کا خوف قائم رکھنے کی خاطر جنت اور جہنم قائم کی گئی۔ جنت کی طمع، اور جہنم کا ڈراوا پیش نظر نہ ہوتا تو یہ نظام دو گھڑی سے زیادہ کبھی نہیں چل سکتا تھا۔ پھر ہر طاقتور کمزور سے، ہر با اثر مجبور سے جینے کا حق چھین لیتا۔ ہر کوئی دوسرے کے حلق سے نوالہ نکال لیتا اور زمین تنگ کرکے رکھ دیتا۔ احتساب کے خوف کی بدولت ہی اب تک انسانی معاشرہ اپنا امتیاز برقرار رکھے ہوئے ہے۔ تمام مذاہب عالم کی تعلیمات میں آخرت اور جواب طلبی کے خوف پر بہت زور دیا گیا ہے۔

فی زمانہ اسلام دین برحق ہے، اور اس کی تعلیمات خدائے بزرگ و برتر کی جانب سے حتمی۔ اسی لیے اسلامی تعلیم میں جزا اور سزا کے تصور کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اسلام میں قانون احتساب کو دیگر ادیان سے یہ انفرادیت حاصل ہے کہ اس میں کسی بھی سماجی مرتبہ و حیثیت کے لیے استثنی یا رعایت ممکن نہیں۔ پھر کسی اور نے بھی نہیں، قائد انقلاب نے بزبان خود معیار طے کیا تھا ریاست مدینہ کے طرز حکمرانی کی پیروی کریں گے۔

کیا ریاست مدینہ کے حکمران کو مواخذے کی کارروائی یا جواب طلبی توہین محسوس ہو سکتی ہے؟ حضرت عمرؓ منبر پر تشریف فرما خطبہ دے رہے تھے۔ ایک گمنام بدو اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا، آپ کا قد دراز ہے اور بیت المال سے ملنے والے کپڑے سے آپ کا کرتا بننا نا ممکن۔ لہذا جب تک آپؓ ہمیں مطمئن نہیں کرتے زائد کپڑا کہاں سے آیا ہم مزید کوئی بات نہیں سنیں گے۔ حضرت عمرؓ کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں آئی فورا منبر سے اترے اور بیٹے کو کہا اسے وضاحت دو۔ بیٹے نے فرمایا مجھے اپنے حصے کا جو کپڑا ملا وہ میں نے اپنے والد کو دے دیا۔ دونوں کو ملا کر والد صاحبؓ کا جوڑا تیار ہو گیا۔ نہ تو امیرالمومنینؓ کو سر عام ایک ادنی شہری کی طرف سے جواب طلبی پر سبکی محسوس ہوئی نہ بعد میں اس غریب کے زن و بچے کولہو میں پسوائے گئے۔

اس وقت اپوزیشن لیڈر نیب کی تحویل میں ہیں جنہیں صاف پانی کیس کی تحقیق کے لیے بلا کر آشیانہ میں دھرلیا۔ تفتیش جوں کی توں ہے اور ریمانڈ میں مسلسل توسیع ہو رہی ہے۔ تین بار کا وزیراعظم بھی قید مشقت برداشت کر رہا، مریض ہونے کے باوجود ہیٹر تک اسے میسر نہیں۔ خواجہ سعد رفیق جیل میں۔ قیصر امین بٹ کے ساتھ وعدہ معاف گواہ بنانے کے لیے غیر انسانی سلوک کا جواب ندادر۔ معاشرے کے صاحب توقیر افراد یعنی اساتذہ کو ہتھکڑیوں اور ان کی لاشوں کو زنجیروں میں جکڑا جا رہا۔ تاریخ میں پہلی بار 170 افراد کے نام یکمشت ای سی ایل پر ڈال دیے گئے۔ چشم فلک نے یہ نظارہ بھی شاید پہلی بار دیکھا ہوگا وفاق کی ایک اکائی کا سربراہ بیرون ملک سفر نہیں کر سکتا۔ اداروں کی توقیر اور پشت پناہی کا درس دینے والے اس بارے واضح احکامات پر بھی صم بکم کی تفسیر بنے بلکہ ڈھٹائی پر اڑے بیٹھے ہیں۔

کیا توہین صرف قائد انقلاب یا ان کے قافلے میں شریک افراد کی ہے؟ الا غلطی سے گرے ایک آدھ چھینٹے کہ لگتا نہیں احستاب کا پرنالہ انقلابیوں پر گرنا شروع ہو چکا، پھر اس قدر واویلا کیوں؟ خود آپ کے فرمودات تھے احتساب وزیراعظم اور وزرا سے شروع ہو کر نیچے جائے گا۔ ابھی بھی تسلیم کرلیں احتساب و انقلاب ڈھکوسلہ تھا، آپ کا مطمع نظر بھی پچھلوں کی طرح اقتدار کا حصول تھا۔ پھر بیشک ڈنگ ٹپاؤ پالیسی جاری رکھیں اور پانچ سالہ باری پوری کر کے گھر بیٹھ جائیں۔

اس کے برعکس احتساب میں سنجیدہ ہیں تو فبہا۔ ہیلی کاپٹر کیس ایک گھنٹے میں ختم ہو سکتا ہے۔ ریکارڈ موجود ہے آپ اس کے استعمال کے اہل نہیں تھے تو قانون کے مطابق جرمانہ ادا کریں یا اپنے قائم کردہ اصول کے مطابق استعفی دے کر گھر جائیں۔ ورنہ دھیرج، گالم گفتار کو ذرا بریک دیں، پاکی داماں کی حکایت جس عروج تک بڑھائی تھی، اس کے بعد ڈھلوان کا سفر ہی ہو گا لہذا احتیاط لازم۔ ابھی تو علیمہ باجی کے متعلق سوالات باقی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).