​ کراچی، کراچی ہے


پاکستان کا صنعتی دار الحکومت کراچی دو کروڑ سے زائد افراد کا مسکن ہے، یعنی پاکستان کی قریبا دس فی صد آبادی شہر قائد کی باسی ہے۔ آبادی کی یہ کثیر تعداد اچھی اور پر وقار زندگی کی حق دار ہے۔

کراچی میں گزشتہ چند سالوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششوں سے شہر میں امن امان کی صورت احوال میں خاصی بہتری آئی ہے اورعوام کے دلوں سے بہت حد تک خوف نکل گیا ہے، تاہم روز مرہ کی زندگی میں اہل کراچی کو کئی بنیادی اور بڑے مسائل کا سامنا ہوتا ہے، جس کا فوری حل انتہائی ضروری ہے۔

آبادی، کراچی کا بڑا مسئلہ ہے، شہر کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے شہر اوور لوڈڈ ہے، آبادی کی کثرت بذات خود کوئی مسئلہ نہیں، لیکن آبادی کی کثرت اور انتظامی نا اہلی جب کسی شہر میں جمع ہوجائے تو اس کا وہی حال ہوتا ہے، جو کراچی کا ہے۔ شور وغوغا کی ایک عجیب کیفیت شہر کی سڑکوں پر ہوتی ہے، جس سے اہل شہر اب مانوس ہو گئے ہیں۔

لاوڈ اسپیکر کا غیر ضروری استعمال کراچی کی گلیوں اور چوراہوں کی علامت بن گیا ہے، مدح و محبت کی روح سے نا آشنا تجارتی نعت خواں اس ’کار خیر‘ کے بڑے شراکت دار ہیں، جن کی آوازیں بند محفلوں سے نکل کر پورے محلے میں رات گئے تک گونج رہی ہوتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اب ٹین ڈبے، بالٹی پیپر اور پریشر کوکر ٹھیک کرنے والے بھی لاوڈ اسپیکر کے ذریعے اپنی آمد کا اعلان کرتے ہیں!

کراچی کی ٹریفک اور سڑکیں بھی آدمی کا صبر کا خوب امتحان لیتی ہیں، چھوٹی سڑکیں اور گلیاں سال ہا سال سے خستہ حال ہیں، حالت یہ ہے کہ اب ہر شخص کو اپنے راستے (روٹ) پر گڑھے اور کھڈوں کے مواقع یاد ہو گئے ہیں، کئی مقامات پر پیچ سڑک پر گٹر کے کھلے ڈھکن پر گاڑی کا پرانا ٹائر یا خستہ حال الماری رکھی ہوتی ہے! کورنگی کے صنعتی علاقے کا راستہ، جس کے ذریعے صنعتوں کو مطلوب مال پہنچتا ہے اور تیار شدہ مال شہر اور ملک بھر میں تقسیم ہوتا، بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے! بلدیاتی حکومت، مقامی نمایندے اور صوبائی انتظامیہ مسائل کی ذمہ داری ایک دوسرے کاندھے پر ڈال کر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے کنارہ کش ہے۔

ٹریفک کی بد انتظامی کا اندازہ 2014 کے اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے، جس کے مطابق کراچی میں 12.5 لاکھ گاڑیاں اور 15 لاکھ سے زائد موٹر بائیکس رجسٹرڈ ہے، شہر کی سڑکوں پر 35 لاکھ کے قریب گاڑیاں اور موٹر بائیکس روزانہ ہوتی ہے، جب کہ ٹریفک پولیس اہل کاروں کی تعداد صرف 3200 ہے! انتظامی نا اہلی کی یہ صورت احوال ٹریفک کنٹرول تک محدود نہیں، قریبا ہر سرکاری محکمے کا یہی احوال ہے۔

کراچی میں گزشتہ دنوں تجاوازات کے خلاف آپریشن کی بازگشت رہی، کئی علاقوں میں بھر پور کارروائی کی گئی، لیکن شہر کی اکثر چھوٹی سڑکوں پر آج بھی تجاوزات کی بھر مار ہے۔ فوڈ اسٹریٹس پر ریستوران مالکان نے اپنا سامان سڑک پر رکھا ہوتا ہے، ان کے سامان کے بعد پارکنگ کی جگہ ہوتی ہے، سڑک کے دونوں طرف یہی صورت احوال ہوتی ہے، درمیان کی تنگ پٹی رکشوں، موٹر بائیکس اور گاڑیوں کے لیے مخصوص ہوتی ہے، جس کو انھوں نے باہمی مفاہمت سے آنے اور جانے کے لیے تقسیم کیا ہوا ہوتا ہے، فوڈ اسٹریٹ کے علاوہ دیگر سڑکوں پر ٹھیلوں کا راج ہوتا ہے، جس کو دیکھ کر اکثر گاڑی والوں کی نیت خراب ہو جاتی ہے، اور وہ سڑک کے عین درمیان گاڑی روک کر اپنی خراب نیت کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔

کراچی کے ان مسائل کے علاوہ رنچھوڑ لائن میں بجلی کی معلق تاریں، فیڈرل بی ایریا کی گلی نما تنگ گزر گاہیں اور چمک دار ریت والی ساحلی پٹی کو کوڑے کی نظر ہوتے دیکھ کر آدمی بے ساختہ ’کراچی، کراچی ہے‘ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

ارباب اقتدار نے ماضی قریب میں کراچی کا امن بحال کرنے کی کام یاب کوشش کی، اور شہر کی بڑی سڑکوں کی حالت بہتر کی، ان سے دست بستہ گزارش ہے، کہ شہر کو انتظامی طور پر بحال کریں، بلدیاتی حکومت کو با اختیار کریں، تین سالوں سے زیر تعمیر گرین لائن کو جلد مکمل کریں، بڑھتے ہوئے ٹریفک، بالخصوص موٹر بائیکس اور رکشوں کو کنٹرول کرنے کے لیے جامع ٹریفک پلان تشکیل دیں، کیوں کہ کراچی اوراہل کراچی بہتر سہولیات کے حق دار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).