عثمان بزدار کو تبدیل کیا جائے یا۔ ۔ ۔


انسانی رویہ ہے ہمیشہ اس چیز سے متاثر ہونا جو اس کی پہنچ میں نہ ہو۔ یا انسان ان چیزوں کے سامنے جھکتا آیا ہے جس نے انسان کو میں اپنی ہیبت یا خوف میں جکڑ لیا۔ انسان سورج کی چمک، تپش سے متاثر ہوا تو اس کے آگے جھکنے لگا تو کبھی کسی انسانی گروہ کو آگ نے متاثر کیا تو اس کی پوجا شروع کر دی۔ وقت گزرنے اور سائنسی ترقی نے کافی حد تک انسان کے اس رویے کو تبدیل کر دیا لیکن ختم نہ ہوسکا۔

موجود دور میں اس رویے کا انداز بدل گیا، چزیں بدل گئیں جن سے متاثر ہوا جاتا ہے۔ خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک میں یہ رویہ ذات، پات، رہن سہن کے انداز میں تبدیل ہوگیا۔ اسی تناظر میں کے لوگ اپنے رہنما سے یا اپنے پیر سے یا کسی شخص سے (جس کا معاشرے میں مقام جس بھی وجہ بلند ہو) متاثر کس طرح ہوتے ہیں اور کس حد تک ہوتے ہیں اک صاحب نے اپنے پیر کی دوسروں پر برتری بیان کرتے ہوا کہا جو راقم نے اپنے کانوں سے خود سنا کے میرے پیر دی کی گل اے قبلہ صاحب بغیر نمبر پلیٹ دی گاڑی ایچ پھر دے نے (میرے پیر کی کیا بات وہ تو بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑی میں پھرتا ہے ) جہاں کسی کی قابلیت، افضلیت کا پیمانہ یہ ہو کہ وہ عام لوگوں کی طرح نہیں رہتا اس کا رہن سہن عام لوگوں یا اکثریت کی طرح نہیں ہے وہاں پر پیر، وڈیروں کا اوپر سیاست میں آنا اور نسل در نسل ہم پر حکمرانی کرنے میں کوئی حیرانگی کی بات نہیں۔

تبھی عمران خان نے پنجاب اور سندھ کی حلقے کی سیاست کو دیکھتے ہوئے الیکٹبلز کو اپنے ساتھ ملا کر اپنے موقف سے یو ٹرن لیا۔ اس مختصر انسانی رویے کی تاریخ کو پیش نظر رکھ کر کیسے ممکن تھا کے لوگوں کو عثمان بزدار جیسا شخص صرف وزیر نہیں بلکہ وزیراعلی کے طور پر پسند آجائے یا اس بھلے انسان سے متاثر ہو جائیں۔ کون عثمان بزدار جس کو کبھی دیکھا تک نہیں تھا بلکہ اس کا نام تک نہیں سنا تھا۔ کون عثمان بزدار جو جنوبی پنجاب کے اک پسماندہ علاقے میں رہتا ہے۔

کون عثمان بزدار جو نہ کسی باہر کی یونیورسٹی میں پڑھا ہوا ہے نہ ایچی سن کا پڑھا ہوا ہے۔ ایسا تو نہیں ہوسکتا میرے صوبے کا وزیراعلی۔ میرے صوبے کا سربراہ کو تو شعلہ بیان ہونا چاہیے تھا۔ چلو شعلہ بیان کو چھوڑو آواز ہی رعب دار ہوتی۔ آواز رعب دار نہیں ہے چلو رہن سہن ہی ذرا ہٹ کر ہوتا۔ چلتے چلتے حال ہی میں وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی بغیر پروٹوکول چولستان میں اک بزرگ عورت سے بات چیت کی ویڈیو وائرل ہوئی اچھے کام کی تعریف تو کیا کرنی تھی الٹا کچھ دوست عثمان بزدار صاحب کی چولستان میں اک بزرگ عورت سے بات چیت کے دوران شہباز شریف کا حوالہ دے کر بات سمجھانے کی کوشش کو لے کر یہ رنگ دیے رہے ہیں شہباز شریف کتنا مشہور لیڈر ہے کے سمجھانے کے لئے شہباز شریف کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔

تو بھائی عرض یہ ہے جب یہ بزرگ عورت جوان ہوگی تب سے مغل اعظم شہباز اور نواز کی حکومت رہی ہے پنجاب میں، تو ظاہری بات ہے اس بزرگ عورت کو شہباز شریف کا پتہ ہوگا اور بزرگ عورت کے حالات سے یہ بات بھی واضح ہے میڑو اور اورنج لائن ٹرین سے کتنا فائدہ ہو رہا ہے پسماندہ علاقے کے لوگوں کو۔ اصل چیز یہ انسانی رویہ ہی تھا جس کی بنا پر عثمان بزدار کا نام وزارت اعلی کے لئے سامنے آنا تھا کے اس کے بعد سے لے کر اب تک عثمان بزدار کی انتظامی معاملات کو جانچے بغیر ہی تنقید کے نشتر چلانا شروع کر دیے، وجہ کیا تھی لاشعوری کی حالت میں پائے جانے والا وہ رویہ جو ابتداء سے ہی انسان کے لاشعور میں موجود ہے اوپر سے سونے پر سہاگہ کے وزیراعظم عمران خان نے منتخب کیا وہ عمران خان جس کے بارے میں حق الیقین رکھتے تھے کہ عمران خان کی قسمت وزیراعظم کی شیروانی لکھی ہی نہیں حالانکہ یہ لوگ دعوے دار ہیں ووٹ کو عزت دو کے۔

اور عمران خان کے بارے میں بھی یہ رویہ اسی بات کا شاخسانہ تھا کے اک معمولی سا کرکٹر سیاست دان کیسے بن سکتا ہے کیوں کے ستر سالہ تاریخ میں ہم نے بڑے پیروں کو بڑے جاگیرداروں کو بڑے بدمعاشوں کو ہی سیاست دان اور لیڈر بنتے دیکھا ہے۔ اور جب عمران خان وزیراعظم بن گیا تو اب عثمان بزدار جیسا شخص وزیراعلی کیسے بن سکتا ہے۔ ہم کو بحثیت قوم اپنے اس رویے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت ہم سمجھتے ہیں جو ہماری طرح ہے وہ تو ہمارا لیڈر بن نہیں سکتا۔

عثمان بزدار صاحب کے معاملے میں بھی اسی رویے کی وجہ سے ان کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور ابھی تک کر رہے ہیں۔ حالانکہ تنقید بنتی ہے اگر وہ انتظامی معاملات میں ناکام ہوجائیں۔ تھانہ، پٹوار خانہ کے حالات ویسے ہی رہیں جو وزیراعلی صاحب دعوے کریں وہ دعوے تک ہی محدود رہیں تب تنقید کریں کھل کر کریں ہم بھی تنقید کریں گے۔ لیکن یہ تنقید جو وزارت اعلی کے لئے منتخب کرنے سے ہی شروع ہوگئی تھی محص اس رویے کی وجہ سے ہے جو تیسری دنیا کے ممالک کے لوگوں میں پایا جاتا ہے اور جس کی وجہ سے آج تک لغاری، لاشاری، پیر، رانے ہم پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ اور یہ لوگ تب تک حکمرانی کرتے رہیں گے جب تک ہمارا رویہ ایسا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).