ہیش ٹیگ پروٹیکٹ وومن


چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک وِڈیو وائرل ہوئی، وِڈیو میں لمبی زلفوں والا ایک نوجوان سرجھکائے پولیس چوکی میں بیٹھا تھا، چند ہی لمحوں بعد وہ زور زور سے چلانے لگا، میں غریب ہوں، کسی امیر باپ کی اولاد نہیں، ان پولیس اہل کاروں نے مار مار کر میرا برا حال کر دیا، جو اب میں قریب کھڑے اہل کار نے سوال کیا، میاں! تم نے شراب پی رکھی ہے؟ یہ الفاظ تیر کے مانند اس کے سینے میں جالگے، وہ بے تاب تھا، بالآخر وہ چلا پڑا، ہاں!

میں نے شراب پی ہے، وہ مجھے چھوڑ کر جا چکی ہے۔ وہ پولیس چوکی میں موجود تھا، جہاں بڑے بڑے ملزمان زبان کھلنے سے ڈرتے ہیں، وہاں وہ عاشق بول پڑا، آگ جو دل میں لگی ہے، پوری دنیا میں لگا دوں گا، جس دن اس کی ڈولی اٹھی زمانے کو جلا دوں گا، اس کے بعد اس مجنوں کا کیا حال ہوا، یہ تھانے کی پولیس ہی بتا سکتی ہے، مگر یہ بات طے ہے، لیلیٰ کے چلے جانے کا زخم مجنوں کے دل میں آج بھی تازہ ہے۔

یہ سنہ دو ہزار سولہ کا واقعہ ہے، ایک عزیز نے نجی یونیورسٹی میں داخلہ لیا، چند روز بعد ہی وہاں ویلنٹائن ڈے کی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ وہ تقریب کسی قومی دن کی تقریب سے کم نہ تھی، قومی دن کے موقع پر جہاں جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں، وہاں دل نما غبارے لگائے گئے، جہاں جھنڈے لہرائے جاتے ہیں، وہاں ململ کے لال ڈبٹے لہرائے گئے، جہاں ملی نغمے چلائے جاتے ہیں، وہاں خوب گانے چلائے گئے، اگر چہ میں وہ تصاویر دیکھ رہا تھا، میرا دل بھی للچا گیا، کاش میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہوتا اور بلا امتیاز ہر تقریب میں شامل ہوتا، پل دو پل کی زندگی کے خوب مزے لوٹتا، لیکن کاش۔

محبت کی علامت سمجھے جانے والا یہ دن ویلنٹائن ڈے دنیا بھر میں جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، آج کا دور جہاں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے، وہاں محبت سے کسی کو لیا لینا دینا؟ اور میاں آج کے دور میں اس نوجوان جیسی محبت کون کرتا ہے، جس کی محبت پولیس چوکی میں بھی کم نہ ہوئی۔

پاکستان میں محبت کرنے والوں کے خلاف خوب پروپگنڈا کیا جاتا ہے، ان پروپگنڈا کرنے والوں میں عدالتیں اور پیمرا سب سے آگے ہیں، سنہ دو ہزار سترہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ویلینٹائن ڈے کو قومی اور روایات کے منافی قرار دیتے ہوئے میڈیا کو کوریج سے روک دیا؛ جب کہ گزشتہ سال پیمرا نے ایک اور اعلامیہ جاری کرتے ہوئے چینلز اور ریڈیو پر اس سے متعلق خبروں اور پروگرام نشر کرنے کی بھی پابندی لگا دی تھی۔

یہ پس ماندہ سوچ کا طبقہ انڈونیشیا میں بھی پایا جاتا ہے، سنہ دو ہزار سترہ میں حکام کی جانب سے طلبا کو ویلنٹائن ڈے منانے سے یہ کہہ کر منع کیا گیا، یہ دن جسنی بے راہ روی کے رجحان کو فروغ دیتا ہے۔

جب کہ پڑوسی ملک ملائشیا بھی اس دن سے اتنا ہی پریشان دکھائی دیتا ہے، جہاں نیشل مسلم یوتھ ایسوسی ایشن نامی ایک تنظیم کی جانب سے خواتین پر زور دیا گیا، کہ وہ ویلنٹائن ڈے کے روز جذباتی علامات اور تیز خوش بو لگانے سے بھی پرہیز کریں۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں، پاکستان میں ویلنٹائن ڈے ہر سال کسی نئے تنازِع کا شکار ہوتا ہے۔ گزشتہ سال ایک نجی یونیورسٹی کی جانب سے ماہ رمضان میں چھے انچ کا قانون بھی نافذ کیا گیا، جس کا مقصد لڑکے اور لڑکی کے درمیان دوران گفت گو چھے انچ کا فاصلہ رکھنا لازمی قرار دیا گیا؛ جب کہ خلاف ورزی کرنے پر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ جامعات میں لڑکیوں پر بے جا سختی پر کئی طالبات سوشل میڈیا پر یونیورسٹی کے قوانین سے متعلق خوب دل ہلکا کرتی ہیں۔ بعض جامعات میں واش روم چھوڑ کر پوری یونیورسٹی میں سی سی ٹی وی کمیرے نصب کیے گئے ہیں۔ جن میں چھے انچ والی جامعہ سرِ فہرست ہے۔

یہ بات قابلِ غور ہے جامعات اپنی ساکھ کو متاثر کرنے میں خود بھی برابر کی شریک ہیں، جن میں خاص موقع پر تقریبات میں طلبا سے ایسے پراجیکٹس کروانا، جن میں خفیہ طور پر لڑکے یا لڑکی کو پھول یا پھر خفیہ پیٖغام پیش کرنا اور دینے والے کا نام صیغہ راز میں رکھنا شامل ہیں۔

ویلنٹائن ڈے ہو، پاکستان ہو اور پریشانی نہ ہو ایسا ممکن نہیں، گزشتہ دنوں پنجاب کی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ اگلے ماہ چودہ فروری کا دن بہنوں کے دن کے طور پر منایا جائے گا، اس روز لڑکے، لڑکیوں کو شال، گاون اور حجاب پیش کریں گے۔ آپ ہزار سوچیں، اس اعلان کے بعد کئی دل ٹوٹیں ہوں گے، اور کئی ارمان بہہ گئے ہوں گے۔ کوئی خود کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہو گا، جناب میرا کانسیپٹ کلیئر ہے۔ میں ارادہ کر چکا ہوں، میں انھیں بہن نہیں کہہ سکتا، تو کسی نے زور سے قہقہہ لگایا ہو گا، وہ دن تاریخ میں رقم ہو گا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے، ایسی ہی رسم ہند و سماج میں رکھشا بندھن کے نام سے مشہور ہے۔ کسی نے گمان کیا ہو گا، کہ اس عمر میں لوگ اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ وائس چانسلر صاحب کو ثقافت کی فکر لاحق ہے۔

یقینا یہ ایک حیران کن بات ہے، آج کے دور میں کون کس کی بھلائی چاہتا ہے اور بھیا بھلا ثقافت سے ہمارا کیا لینا دینا۔ سوال یہ ہے کہ اپنا ملک، اپنی مٹی ہونے کے باوجود بھی عورت اس معاشرے میں خود کو غیر محفوظ اور مرد سے کم تر کیوں سمجھتی ہے؟ لیکن کیوں کہ مرد تو ہوس کا پجاری ہے، جو عورت کو گوشت کے لوتھڑا سجمھ کر کچا چبانا چاہتا ہے۔ وہ عورت کی عزت پر بات کرنے کا اہل نہیں۔ ذرا سوچیے اگر اس موضوع پر عورت آواز بلند کرے، ویلنٹائن ڈے عورت کی بربادی کا سامان بن رہا ہے۔ اس لیے عورتوں کو اس کی مخالفت کرنی چاہیے، تو ہیش ٹیگ پروٹیکٹ وومن اور بائیکاٹ ویلنٹائن ٹاپ ٹرینڈنگ بن جائے۔

البتہ دنیا ترقی کی دوڑ میں اس قدر مصروف ہے، کہ چاند پر پہنچنے کے بعد اب مصنوعی چاند کی تیاری جاری ہے، پس ماندہ سوچ کے غلام اب تک عورت اور تہذیب کی باتیں کرتے ہیں، شاید انھیں معلوم نہیں، آج کی عورت اس بات سے خوب واقف ہے، کیوں کہ اس کی مرضی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).