ہماری معاشرے کی خوبصورتی


ہمارے معاشرے کی ایک خوب صورتی، یہ بھی ہے کہ یہاں کوئی اپنی تہذیب اور روایات سے نکل کر اپنے خوابوں کی تلاش میں نہیں نکل سکتا۔ ہو سکتا ہے، کہ باقی شہروں میں صورت احوال کچھ مختلف ہو مگر میرا تعلق جس معاشرے سے ہے؛ وہاں تو یہ معاشرتی خوب صورتی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ کچھ ماہ قبل کچھ نوجوان لڑکے لڑکیوں نے کسی مارننگ شو، میں علاقائی، روایتی رقص کیا جو صدیوں سے ہمارے آبا و اجداد کی ثقافت کا حصہ رہا ہے، اور مقامی لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔

نتیجتہََ وہ ارادتہََ یا غیر ارادی طور پر علاقے کی تہذیب و روایات جو ایران اور دیگر عرب ممالک سے ورثے میں ملی ہیں، کے خلاف عالمی سازش کا حصہ بنے۔ مگر ہمارے مضبوط ایمان اور تہذیب اور روایات کے پاس داران نے سوشل میڈیا میں ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اس صیہونی سازش کو انھی کے اس دجّالی میڈیا کے میدان ہی میں ناکام بنایا۔ یہی نہیں پچھلے دنوں سکردو کے نواحی کسی گاؤں میں علاقے کے کمشنر نے میوزیکل نائٹ کا اہتمام کیا، جس کے خلاف علاقے کے لوگوں نے بھرپور احتجاج کیا اور ہر فورم پہ اپنے تحفظات رِکارڈ کرائے اور نتیجتہََ اسسٹنٹ کمشنر صاحب کو میوزیکل نائٹ منسوخ کرنی پڑی۔ اس دن سوشل میڈیا پہ تہذیب و روایات کے پاس داران کی خوشی دیدنی تھی۔

بہر حال بات چل رہی تھی، روایات کے منافی خوابوں کی جستجو کی تو ایسے معاشرے میں کوئی بھی اتنا بڑا قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی ایسا کرنے کی ہمت کرے تو وہ تنِ  تنہا ہو جاتا ہے۔ ہماری تہذیب اور روایات جب یہ کہتی ہیں کہ موسیقی، اداکاری اور ایسے پیشے جن سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے، ہماری اگلی نسلیں معذور پیدا ہو سکتی ہیں، تو کوئی سر پھرا کیوں ان روایات کے منافی چلنے کی ہمت کرے؟ اول تو کسی میں اتنی ہمت نہیں ہو گی، کہ ایسے کسی خواب کے پیچھے بھاگے جو اسے دین دنیا اور آخرت میں بھی رسوا کرے۔

لیکن اگر پھر بھی کوئی ہمت کرے تو ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کو سزا دینے کی صلاحیت بھی معاشرے کو سنوارنے والوں کے اندر کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے۔ ایسے انسان کو ایسی نظر سے دیکھا جائے گا، کہ جیسے کسی نیچ ذات کو کسی زمانے میں دیکھا جاتا تھا، یا یوں سمجھ لیں جیسے حکمران الیکشن جیتنے کے بعد عوام کو دیکھتے ہیں۔

ایسے کئی لوگ ملیں گے، جو فن کار، موسیقار یا سوشل میڈیا اسٹار بننا چاہتے ہیں، مگر حالات سے مجبور ہیں۔ ایسے بھی لوگ ملیں گے، جن کو ان کے شوق نے گھر سے بے گھر کر دیا ہو۔ جب ایک گھرانا ایسے انسان کو گھر کا فرد تسلیم نہیں کرتا تو معاشرہ کیسے کر سکتا ہے۔ یہاں عزت بھی اسی کی لونڈی ہے، جو اپنے خوابوں کی بَلی چڑھا کر ان راویات کے سامنے ایک غلام کی طرح سر جھکا دے اور تہذیب اور روایات کی چادر اوڑھے زندگی گزارے۔

تہذیب اور روایات کی یہ خوب صورتی کیا کم ہے، کہ ان پہ چل کر ایک انسان لاکھ برائیوں کے باوجود ایک اچھے اور تہذیب یافتہ شخص کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ہماری قدرت بھی انھی پہ مہربان ہوتی ہے، جو روایات کے دائروں سے باہر نہیں نکلتے اور اپنے خوابوں کی قربانی دے دیتے ہیں۔ مفلسی کی زندگی میں بھی ایسے لوگ عزت سے زندگی گزار لیتے ہیں۔ ضروری تو نہیں کی کوئی خوابوں کی تکمیل یا دنیوی عیش وعشرت کے لیے معاشرے میں اپنا مقام گرا دے۔ پھر کوئی سر پھرا کیوں کر موسیقار بنے، کوئی فن کار کیوں بنے اور کیوں ایسے خوابوں کی جستجو کرے جب ہمارا معاشرہ ان کو برا جانتا ہے۔

کوئی ان سر پھروں سے پوچھے۔ بھائی عزت و تکریم ہی کمانی ہے نا، اس دنیا میں؟ یہ آپ کی خام خیالی ہے کہ آپ اسی کام کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور اسی میں آپ کے لیے عزت لکھی ہوئی ہے۔ ارے بھائی عزت کمانا تو سب سے آسان کام ہے یہاں۔ محلے کی معزز لوگوں میں اٹھیں بیٹھیں، ان کی عزت کریں، اور کبھی کبھار ان ک ساتھ ہی مصلے پہ بھی بیٹھ جایا کریں، عزت ہی عزت ملے گی۔ کبھی کسی فلاحی کام کے لیے چندہ سمیٹیں، تقریبات میں پیش پیش رہیں۔ آپ کی بھی روزی لگ جائے گی؛ دوسروں کی بھی روزی روٹی لگی رہے گی۔ خوامخواہ کیوں لوگوں کے بیوپار کے دشمن بنتے ہیں؟ کیوں روایات کے خلاف چل کر اپنے معاشرے سے بغاوت کرنے پہ تلے ہوے ہیں۔ توبہ کر لیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).