کیا چیف جسٹس کو ایکسٹینشن مل سکتی ہے؟


ہم ستر برس سے ایک ایسے مسیحا کے منتظر تھے جو وطن عزیز میں انقلاب لے آئے اور اسے صراط المستقیم پر گامزن کرے۔ اور یہ بات تو ہر ذی شعور پاکستان کو تسلیم کرنی پڑے گی کہ ہمارے ہردلعزیز چیف جسٹس جناب سر ثاقب نثار ہماری عدالتی اور سیاسی تاریخ میں ایک انقلاب لے آئے ہیں۔ ہر وہ شے جسے دیگر سیاست دان نظرانداز کر رہے تھے اور جو ملکی سالمیت اور قومی یکجہتی کے لئے اہم تھی، اسے ہمارے محبوب چیف جسٹس نے اپنے ہاتھوں میں لیا تو پھر ہی قوم کو احساس ہوا کہ وطن عزیز کے لئے کتنا بڑا خطرہ موجودہ ہے۔

ڈیم کا مسئلہ لے لیں، بڑھتی ہوئی آبادی کا، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے قانون سازی کے معاملات کا، حکومتی اداروں کا، کرپشن کا یا میڈیا کے ٹکرز کا، ہر ایک اہم معاملے میں چیف جسٹس نے عدالتی سربلندی کی تاریخ رقم کر دی۔ کہاں یہ حال کہ کوئی شخص اپنے حصے کا کام نہیں کرتا، اور کہاں فرض شناسی کی ایسی درخشاں مثال کہ چیف جسٹس نے وہ کام بھی اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھا لیا جو آئینی اور قانونی طور پر دوسروں کی ذمہ داری تھی۔

لیڈروں کا کیا ہے۔ ایک لیڈر اگر شہید بھی کر دیا گیا تو اس کی جگہ دوسرا لے لے گا۔ ایک انگریزی مقولہ مشہور ہے کہ ”قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں“۔ لیڈروں کی خیر ہے لیکن ہمیں تو یہ چیف جسٹس کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشانی ہوتی ہے جنہوں نے فرمایا تھا کہ ”میری ریٹائرمنٹ کے بعد پتا نہیں کیا ہوگا؟ “ حق یہی ہے کہ ویسے تو سب لوگ ناگزیر ہوتے ہیں مگر کچھ لوگ دوسروں سے زیادہ ناگزیر ہوتے ہیں۔

اب وقت قیامت آیا ہے اور 17 جنوری کو چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ مقرر ہے تو ہم جیسا ہر محب وطن شخص اسی سوچ میں غلطاں ہے کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد کیا ہو گا؟ کون ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کرے گا؟ کون ڈیم بنائے گا؟ کون فالتو بچوں کو اس دنیا میں آنے سے روکے گا؟ اس نازک صورت حال میں ہر درد دل رکھنے والا شخص یہ سوچ رہا ہے کہ کیا چیف جسٹس کو ایکسٹینشن مل سکتی ہے؟

کئی لوگ مایوسی پھیلا رہے ہیں کہ ہمارے ہر دلعزیز چیف جسٹس کو ایکسٹنشن ملنا ممکن نہیں ہے کیونکہ آئین میں لکھا ہے کہ 65 برس کی عمر میں ریٹائر ہونا پڑے گا۔ ان لوگوں کی کوتاہ نظری پر حیرت ہوتی ہے۔ مثل مشہور ہے کہ جہاں چاہ وہاں راہ۔ آئین میں یہ شق تبدیل کرنا تو مشکل ہے کیونکہ سیاست دان کرپٹ ہیں، لیکن ہماری رائے میں چند دوسرے طریقے بھی موجود ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ چیف جسٹس کے برتھ سرٹیفکیٹ میں غلطی نکل آئے اور چیف جسٹس کی حقیقی عمر 65 نہیں بلکہ محض 60 برس ہو۔ کچھ عرصہ پہلے ہندوستان کے ایک چیف صاحب کے برتھ سرٹیفکیٹ میں عین ریٹائرمنٹ سے پہلے ایسی غلطی نکل آئی تھی۔ جنرل وجے کمار سنگھ نے بتایا کہ کسی شریر شخص کی غلطی کی وجہ سے ان کی تاریخ پیدائش 10 مئی 1951 کی بجائے 1950 درج ہو گئی لہذا سپریم کورٹ ان کی پیدائش کے معاملے میں مداخلت کرے اور ان کو ایک برس مزید بھارت کی خدمت اور آرمی کی حکمرانی کی اجازت دی جائے۔ بھارت کے عیاش اور مکار سیاست دانوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے برتھ سرٹیفکیٹ درست نہ ہو سکا جنہوں نے سپریم کورٹ کو بہکا دیا۔

الحمدللہ ہمارے وطن میں برتھ سرٹیفکیٹ کو درست ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے کیونکہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ اگر ہماری دلی خواہش کے مطابق برتھ سرٹیفیکیٹ میں کوئی غلطی ہے تو چیف جسٹس پندرہ منٹ میں اپنے پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر کو حاضر ہونے کا حکم دے کر اس کے ریکارڈ میں تصحیح کروا سکتے ہیں اور اگلے پندرہ منٹ میں نادرا کے ڈی جی کے ذریعے شناختی کارڈ میں تاریخ درست کروا کر آئینی تقاضا پورا کیا جا سکتا ہے۔

دوسرا طریقہ یہ کہ معزز چیف جسٹس صاحب بتا چکے ہیں کہ ”قانون وہ ہے جو ہم ڈکلیئرکریں گے“۔ یعنی اگر آئین میں یہ لکھا ہے کہ 65 برس کی عمر میں ریٹائر ہونا ہے تو اس بات کی وضاحت چیف جسٹس کر سکتے ہیں کہ ایک برس میں کتنے دن ہوں گے۔ کیا ایک اسلامی ملک میں بھی قانون کی کالی ڈکشنری یا مسیحی پوپ کا بنایا ہوا کیلنڈر دیکھ کر یہ طے کیا جائے گا کہ سال میں کتنے دن ہوتے ہیں؟ پھر یا ہمارے خطے میں زبان کی سب سے بڑی سند غالب سے استفادہ کیا جائے گا جو فرما چکے ہیں کہ ”تم سلامت رہو ہزار برس / ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار“۔ ہماری رائے میں غالب کسی بھی پوپ سے بڑے زبان دان ہیں اور ان کی بات مانی جانی چاہیے۔ چیف جسٹس اپنی روایتی دلیری، معاملہ فہمی اور قانون شناسی کے لئے تو اساطیری حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ وہ مناسب قانونی نکتہ نکال کر گریگوری کی بجائے غالبی تقویم اختیار کرنے کا حکم دے سکتے ہیں کیونکہ قانون وہ ہے جو وہ ڈکلیئرکریں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar