مصباح اور یونس کیوں یاد آتے ہیں؟


جنوبی افریقہ میں قومی ٹیم کو چھ سال بعد پھر وائٹ واش شکست ہوئی توشائقین اور ناقدین نے پاکستان کے کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان مصباح الحق اور کامیاب ترین بلے باز یونس خان کو بے حد یاد کیا۔ سوشل میڈیا پر ”مس یو“ کا ٹرینڈ بن گیا۔ ایسے ایسے بیانات داغے جیسے ان کی موجودگی میں پاکستان یہاں جیتا ہو۔ حقیقت بالکل مختلف ہے۔ مس یو کو یاد کرنے سے پہلے اعداد و شمار پر نظر ڈالیے۔

دوہزار تیرہ کے دورہ جنوبی افریقہ میں مصباح اور یونس کی موجودگی میں پاکستان کو وائٹ واش شکست ہوئی۔ پاکستان اپنی تاریخ کے کم ترین اسکور 49 رنز پر ڈھیر ہوگیا، مصباح اور یونس کچھ نہ کرپائے۔ تین بار پاکستان دو سو کا ہندسہ بھی عبور نہیں کرپایا۔ جوہانسبرگ ٹیسٹ تو پاکستان اننگز سے ہارا تھا۔

دو ہزار سولہ میں مصباح کی قیادت اور یونس کی موجودگی میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کا دورہ کیا۔ اس بار بھی ناکامی مقدر تھی۔ ”مس یو“ قومی ٹیم کو جتوانے میں فیل ہوئے۔ قومی ٹیم دو بار دو سو کے اندر اور دو بار ڈھائی سو کے اندر ڈھیر ہوئی۔ نیوزی لینڈ کے پڑوسی ملک آسٹریلیا میں بھی پاکستان مصباح کی کپتانی اور یو کے تجربے کے ساتھ گیا۔ لیکن اس بار بھی رسوائی قومی ٹیم کے حصے میں آئی۔ ”مس یو“ کی موجودگی میں پاکستان ایک یا دو نہیں تینوں ٹیسٹ ہار گیا۔ مصباح کی سربراہی میں پاکستان کو ایک اور وائٹ واش شکست ہوئی۔ ناقدین اس سیریز کو مصباح اور یونس کے کیرئیر کی آخری سیریز کہہ رہے تھے لیکن یونس کو دس ہزار رنز مکمل کرنا تھے اور مصباح کو ویسٹ انڈیز میں جیت نظر آرہی تھی، اس لئے ریٹائرمنٹ موخر ہوگئی۔

ویسٹ انڈیز اڑان بھرنے سے پہلے طے ہوگیا۔ یہ سیریز ”مس یو“ کے کیرئیر کی آخری سیریز ہوگی۔ ویسٹ انڈیز تاریخ کی کمزور ترین ٹیم تھی۔ لیکن یہاں بھی مصباح اور یونس کی موجودگی میں پاکستان ٹیم صرف 81 رنز پر ڈھیر ہوئی۔ قومی ٹیم دوسرے ٹیسٹ میں معمولی 181 رنز کا تعاقب نہیں کرسکی۔ سیریز ڈرا ہونے والی تھی لیکن معجزا ہوگیا۔ یاسرشاہ نے آخری گیند پر وکٹ دلوائی اور تاریخ رقم ہوگئی۔ مس یو کا کیرئیر اختتام کو پہنچ گیا۔ مصباح ویسٹ انڈیز میں ٹیسٹ سیریز جیتنے والے پہلے پاکستانی کپتان بنے۔ یونس نے ٹیسٹ کیرئیر دس ہزار رنز کا سنگ میل عبور کیا۔

جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں پاکستان کو ”مس یو“ کے ہوتے ہوئے بدترین شکست ہوئی۔ بات صرف غیر ملکی دوروں تک ہی محدود نہیں۔ یواے ای میں نیوزی لینڈ، سری لنکا اور جنوبی افریقہ نے پاکستان کو ہرایا۔ جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ نے تو اننگز سے ہرایا۔ پاکستان 2012 اور 2014 میں سری لنکا گیا پر وہاں سے بھی خالی ہاتھ واپس آیا۔ زمبابوے جیسی کمزور ٹیم نے بھی 2013 میں پاکستان کو زیر کیا۔ حیران مت ہو اس میچ میں بھی یونس اور مصباح ٹیم کا سب سے اہم ستون تھے۔

یونس پاکستان کی تاریخ کے کامیاب ترین بلے باز اور مصباح کامیاب ترین کپتان ہیں۔ اس کے باوجود دونوں کو کبھی عظیم کھلاڑیوں جیسی عزت نہیں دی گئی۔ یونس نے جاوید میانداد، ظہیرعباس، انضام الحق اور محمد یوسف سے زیادہ رنز بنائے لیکن پھر بھی انھیں وہ مقام نہیں مل سکا جس کے وہ حقدار تھے۔ اسی طرح مصباح نے بھی عمران خان سے زیادہ میچز جتوائے لیکن انھیں کبھی بڑا کپتان تصور نہیں کیا جاتا۔ پاکستان مصباح اور یونس کی موجودگی میں بھی ہارتا تھا اور اب بھی ہار رہا ہے۔ تو پھر شور کیوں؟ ناکامیوں کی وجہ ”مس یو“ کی غیر موجودگی نہیں بلکہ ڈومیسٹک کرکٹ کا معیار اور چھوٹی ٹیموں کے غیر ملکی دورے نہ ہونا ہے۔ اب ہم سب کو مصباح اور یونس سے آگے بڑھ جانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).