منٹو کو پڑھئے سر پہ سوار نہ کیجئے


منٹوزندہ تھا تو ترقی پسند ہی بڑ ے مخالف تھے۔ آج لاہور پریس کلب کے سامنے ترقی پسندوں نے مظاہرہ کیا کہ منٹو فلم اور ڈراموں پہ پابندی ہٹائی جائے۔

انڈیا کی نئی منٹوفلم میں دیکھیں تو ترقی پسند والے منٹو کے افسانوں کے خلاف گواہیوں میں عدالت میں فیض احمد فیض جیسے معتبر پیش پیش نظر آتے تھے اور کہتے پھرتے تھے منٹو کا افسانہ لٹریچر کے پیمانہ پہ پورا نہیں اترتا۔

منٹو بھی خود کو کسی تحریک سے جڑا ہوا پسند نہیں کرتا تھا اور ان حلقوں سے دور رہتا تھا۔ آیا ترقی پسند والے اب 2019 کے ترقی پسند والے نئے پاکستان کی طرح نئے آزاد خیال ہوگئے ہیں کہ منٹو کے حق میں آئے ہیں یا اپنے پرانے گناہ کو دھونے اور شرمندہ ہونے کا بہانہ ہے؟

۔ مجھے ”کرارا“ ’یا مدلل جواب تو ترقی پسند والے ہی دیں گے، انتظار رہے گا۔ البتہ ناقد عامر حسینی صاحب نے اس بارے یہ کہا ہے کہ ا نجمن ترقی پسند مصنفین کی اس وقت کی مرکزی کمیٹی میں منٹوکے خلاف جب قرار داد آئی تو کئی ایک بڑے ترقی پسند والوں نے مخالفت کی تھی جن میں سبط حسن، حمید اختر، احمد ندیم قاسمی اور بڑے نام شامل ہیں اور اس کے علاوہ بھی جو ترقی پسند شاعر یا ادیب نہیں تھے اس قرار داد کے خلاف تھے جنہو ں نے اس قرار داد کو پیش کیا تھا، وہ بعد ازاں اس کو غلطی قرار دیتے تھے

اب مجھے منٹو اور اس کی ایک تحریر پہ بات کرنی ہے۔ منٹو کو جس فن نے منٹو بنایا ہے اور کوئی افسانہ نگار اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا وہ منٹو کا منفرد اوربڑا افسانہ نگار ہونا ہے منٹو کی شخصیت جیسی بھی ہو لیکن منٹو کی افسانہ نگاری کا کوئی جواب نہیں منٹو کا کوئی افسانہ فحش نہیں اگر کسی کو منٹوفحش لگتا ہے تو وہ منٹو کے تمام افسانے ضرور پڑھ لے اور پھر رائے قائم کرے۔

جیسا کہ منٹو کی یہ ”کتاب تلخ ترش اور شیریں“ ہے اس میں ”دیواروں پہ لکھنا“ ’بے حد پسند آیا ہے جس میں کچھ اہم نکات یہاں لکھ دیتا ہوں۔

*شروع میں انسان تسکین اور تفریح کے لئے لکھتا ہے بعد میں پیٹ پالنے کے لئے لکھتا ہے۔

*ابتدا میں تحریر یں دیواریں کالی کرتی ہے بعد میں تحریریں، دیواریں بناتی بھی ہے ڈھاتی بھی ہے

*مسجد کے غسل خانوں میں بھی ترقی پسند ادب اور مصوری نظر آ جائے گی

*بقلم خود لکھنے کا شوق بہت زیادہ ہے۔ وقتی طور پہ انسان کی خودی کو تسلی ہو جاتی ہے

*جب تک دیواریں سلامت ہیں ان پہ انسان لکھتا رہے گا

میں اردو ادب کا طالبعلم نہیں ہوں نہ ہی کوئی منٹو پہ تحقیق کررہا ہوں۔ کہنا یہ ہے کہ منٹو ہر ایک چیز کو اپنی نظر سے دیکھتا تھا اور منفرد انداز میں جیسے ہے ویسے ہی پیش کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ منٹو نے اس تحریر میں دیواروں غسل خانوں پہ لکھنے والوں کی عادات کا ذکر کیا توکچھ طنزیہ جملے لکھے۔ ایسے ہی منٹو نے جب عورت اور مرد پہ لکھتا ہے تو وہی لکھتا ہے جیسا وہ نظر آتا ہے۔ منٹو نے ٹھنڈا گوشت لکھا یا جس افسانے کو بھی فحش قرار دیا گیا پڑھنے والوں نے اس کو سر پہ سوار کیا اور نتیجے میں فحش، برا اور لغو کہا۔ منٹو کو پڑھئے لیکن سرپہ سوار نہ کیجئے۔ منٹو نے ہمارے معاشرے کا سچ لکھا ہے، پڑھئے اور تسلیم کیجئے کہ ہاں معاشرہ ایسا ہے۔

منٹو نے بھی تو سوال کیا تھا کیا حقیقت سے انکار ہمیں اچھا انسان بنائے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).