ہمارے ہاں کی ’صحافت‘ کا حال مت پوچھو


بھارتی ریاست کرناٹک کے شہر میسور کے ایک یوگی ہیں ’سادھ گرو جگی واسو دیو‘۔ دنیا بھر میں یوگا سکھاتے ہیں اور ان کی بنائی گئی ’ایشا فاؤنڈیشن‘ تعلیم، صحت اور دیگر سماجی کاموں میں بھی پیش پیش ہوتی ہے۔ سادھ گرو کی صحت، مذہب اور روحانیت پر لکھی گئی کتابوں کو نیویارک ٹائمز نے بیسٹ سیلر بکس کا اعزاز عطا کیا ہے۔ بھارتی حکومت نے روحانیت کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کو پدما بھوشن ایوارڈ سے بھی نوازا۔

یوگی سادھ گرو نے دورانِ گفتگو ایک چائے والے کا احوال سنایا جو ویرات کوہلی، مہندرا سنگھ دھونی اور سچن ٹنڈولکر کے کھیل پر تنقید کے نشتر برساتے ہوئے یہ سمجھانے بیٹھ جاتا ہے کہ ان کو کرکٹ کیسے کھیلنی چاہیے۔ یہ چائے والا بھارتی وزیرِاعظم مودی کو بھی بے نقط سناتا ہے کہ اسے بھارت مہان کو چلانے کی تمیز نہیں ہے۔ الغرض وہ معاشرے کے ہر نامور شخص پر تنقید بھی کرتا ہے اور مفید مشورے بھی مفت دیتا ہے لیکن جب اس کی بنائی ہوئی چائے کی چسکی لی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسے تو ڈھنگ سے چائے کی ایک پیالی بنانا بھی نہیں آتا۔

کچھ ایسا ہی حال آج کل ہمارے بعض صحافیوں کا بھی ہے۔ (ان عناصر کے لیے صحافت کا لفظ استعمال کرنے پر خاکسار معذرت خواہ ہے)۔ دنیا جہان پر تُھو تُھو کریں گے لیکن اپنا یہ حال ہے کہ صحافت کے بنیادی اصولوں تک کی پاسداری کا رواج نہیں۔ کوئی صالح ظفر مند ہوا ہے، کسی صدیق نے عرفان پایا ہے، کہیں حذیفہ پر رحمت برس رہی ہے اور کہیں پاکستان میں ڈارک ویب کے موجد پر قیامت نثار ہے۔ بعض خوشامد کی معراج پا گئے اور بعضوں سے بھانڈ بھی شرمندہ ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اس ملک میں وہ اینکر بھی ریٹنگ لے رہے ہیں جن کے پروگرام کی آف-ایئر فوٹیج آج بھی یوٹیوب پر دستیاب ہے۔

اردو شعر و ادب کی ایک بھولی بسری شخصیت شاد عارفی نے کہا تھا:

ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

ایک مزدور صحافی ہونے کے باوجود مجھے یہ گستاخی کرنے دیجیے کہ شعر کے پہلے مصرعے میں سیاست کو ’صحافت‘ سے بدل کر شعر کو ایک نئے معانی سے ہمکنار کر دوں۔ ہوسکتا ہے میری یہ گستاخی کچھ بڑوں کو ناگوار گزرے لیکن سچی بات یہ ہے کہ جس جذبے اور مقصد کے تحت میں نے صحافت کو بطور پیشہ اپنایا تھا خاص طور پر ٹی وی چینلز پر ’سب سے پہلے‘، ’بازی لے گیا‘ اور ٹاک شوز میں بیٹھے بعض رنگ برنگے تجزیہ نگاروں اور دانشوروں نے اس جذبے کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ اب تو مہینے بعد تنخواہ وقت پر ملے تو شکر کرتے ہیں کہ دال روٹی چلتی رہے گی۔

ہمارے بعض صحافی اور دانشور بھی یوگی سادھ گرو کے چائے والے ہی ہیں۔ دنیا جہان کو مشورے دیں گے لیکن صحافت کے مسلمہ پیشہ ورانہ قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑانا ان کے لیے فخر کی بات ہے۔ آج صحافت میں موجود بعض بڑے بڑے ناموں کا مطمح نظر اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے سرکاری عہدوں اور سرکار دربار میں باریابی کے سبب پلاٹ اور پرمٹ کا حصول رہ گیا ہے۔ کوئی وزیر مشیر بن بیٹھتا ہے، کسی کے لیے وزارتِ اعلیٰ معراج ہے۔ کسی کی نظر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی چیئرمینی پر ہے تو کوئی اکادمی ادبیات کے سربراہ کی کرسی پر نظر جمائے بیٹھا ہے۔

سفارتی تعلقات کے لئے درکار نزاکت کی الف ب نہیں جانتے نہ آتی ہو لیکن شوق کسی ترقی یافتہ ملک میں سفارت کا بھی چڑھ سکتا ہے۔ بعض تو فخر سے بیان کرتے ہیں کہ فلاں رہنما سے یہ کام میں نے کروایا۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ صحافی ہونے کے باوجود میں لٹھ لے کر اپنی ہی برادری کے پیچھے کیوں پڑ گیا ہوں؟

شانِ نزول اس کالم کی یہ ہے کہ محترم حسن نثار صاحب وزیرِاعظم عمران خان سمیت پوری تحریکِ انصاف پر برہم ہیں۔ وزیرِ خزانہ اسد عمر پر سقراط اور ارسطو کی پھبتی کستے ہوئے انہوں نے فرمایا ہے کہ کار پردازان حکومت کو چوکوں میں کان پکڑوا دینے چاہئیں۔ حالانکہ یہ وہی حسن نثار ہیں جو ایک وقت میں تحریکِ انصاف کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کو بے نقط سناتے تھے۔ تحریکِ انصاف کے سوا باقی جماعتوں کے لیے شاید ہی کوئی بُرا لقب ہو جو ان کی لغت میں باقی بچا ہو۔ 2018ء کے انتخابات سے پہلے صرف عمران خان ہی ان کے نزدیک قوم کے نجات دہندہ تھے۔

غنیمت ہے کہ انہوں نے اپنے ایسے تجزیوں اور تبصروں پر ندامت اور دکھ کا اظہار کیا۔ یہ بھی تسلیم کیا کہ ’ٹاپ مین‘ یعنی سربراہِ حکومت کے دیانت دار ہونے کی صورت میں پورے نظام میں دیانتداری کے جراثیم پھیلنے کا ان کا مفروضہ غلط ثابت ہوا حالانکہ یہ فتویٰ وہ اس قدر حتمی لہجے میں ارزاں کیا کرتے تھے جیسے کوئی سائنسدان پانی کا فارمولہ ’ایچ ٹو او‘ بیان کرتا ہے۔ اب وہ فرماتے ہیں کہ برِصغیر پاک و ہند کی تاریخ ان کے اس مفروضے کی نفی کرتی ہے۔ تاریخ سے اتنی بھی شناسائی آپ کو نہ تھی تو آپ کس برتے پر تحریکِ انصاف کو فرشتوں اور جادوگروں کی جماعت قرار دیتے تھے کہ وہ 90 یا 100 دنوں میں چمتکار کر دکھائے گی؟ کون سا الہٰ دین کا چراغ آپ کو ان کے ہاتھوں میں نظرآیا تھا کہ جسے رگڑتے ہی ’کیا حکم ہے میرے آقا؟‘ کہتا ہوا جن برآمد ہوگا اور پھر اس قوم کے سارے دلدر دُور ہوجائیں گے۔

مقامِ شکر ہے کہ حسن نثار صاحب نے دُکھ اور ندامت کا اظہار کرتے ہوئے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ وہ اپنی عقل کو ڈھنگ سے استعمال نہیں کر سکے۔ لیکن! اس کے باوجود پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ پنجاب کے وزیرِاطلاعات فیاض الحسن چوہان پر وہ برہم ہیں کہ انہوں نے صحافیوں کو بدتمیز کیوں کہا؟ لیکن اگلے ہی سانس میں انہوں نے وزیر موصوف اور حکومت میں شامل دوسرے سیاستدانوں کو لچ لفنگ پارٹی، ٹٹ پونجیے، کیریکٹر لیس، دیہاڑی باز اور بونگے جیسے القابات سے نوازا ہے۔

ایسا بھی نہیں کہ حسن نثار صاحب کی باتوں میں وزن نہیں لیکن غور کریں تو انہوں نے وہی رویہ اور لہجہ سیاستدانوں کے بارے میں اختیار کر رکھا ہے جس رویے پر وہ سیاستدانوں سے شاکی ہیں۔ جذبات کی رو میں بہہ کر وہ یہ بھول گئے کہ ایک صحافی کا یہ منصب نہیں۔ صحافی کا کام افرادِ معاشرہ کو معاشرے میں ہونے والی افعال و اعمال کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔ اگر وہ اس کی بصیرت رکھتا ہے تو اسے ان واقعات پر تبصرے اور تجزیے کا حق بھی حاصل ہے لیکن ایسا اسی صورت میں روا ہے اگر صحافی زیرِ بحث معاملات پر ضروری معلومات رکھتا ہو۔ ایسا نہ ہو کہ اسے پیپرا کے معانی تک معلوم نہ ہو اور وہ ٹی وی پر گلے کی رگیں پھلا پھلا کر چلاتا پھرے کہ پیپرا رولز کی خلاف ورزی ہو گئی ہے۔

بات بہت سادہ ہے کہ صحافی یا تجزیہ نگار اگر اپنی ثقہ معلومات کی بنا پر یہ یقین رکھتا ہو کہ کوئی حکومتی عہدیدار یا اہلکار کسی غلطی یا بدعنوانی کا مرتکب ہو رہا ہے تو وہ اس کی نشاندہی کرنے کا پورا حق رکھتا ہے بلکہ یہ اس کی ذمہ داری ہے۔ تاہم کسی بھی صحافی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی بھی فرد، خواہ وہ معاشرے کا عام فرد ہو یا حکومت کا کوئی اعلیٰ ترین عہدیدار، کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کرے جو اخلاقیات کے کسی بھی قاعدے کے مطابق نہ ہوں۔ کسی صحافی اور کسی دانشور کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اخبارات کے صفحات یا ٹی وی اسکرین کو اپنے جذبات کے تحت یرغمال بنالے۔

صحافی کی حیثیت ایک سماجی جاسوس (SOCIAL SPY) کی سی ہوتی ہے جسے معاشرے کے ہر فرد سے ملنا، اس کی بات سننا اور سمجھنا ہوتی ہے، لیکن یہ حق کسی کو نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنے جھوٹے مفروضوں کے غلط ثابت ہونے پر حکومتِ وقت کو مدرسے کا بچہ سمجھ کر مولوی شاہ دین کی طرح مولا بخش برسانا شروع کر دے۔

(بشکریہ: ڈان بلاگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).